تحریر : ظہور دھریجہ سرائیکی فلم ”دھیاں نمانڑیاں” کے رائٹر اور معروف ڈرامہ نگار قیصر ملک ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب ( 9 اپریل، 2017ئ) دل کا دورہ پڑنے سے ملتان وفات پا گئے۔ مرحوم نے اپنے کیریئر کا آغاز ریڈیائی ڈراموں سے کیا اور ریڈیو پاکستان ملتان سے ان کے ڈراموں کو بہت شہرت ملی ، وہ اچھے ڈرامہ رائٹر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ سرائیکی شاعر بھی تھے لیکن ان کی پہچان ڈرامہ رائٹر کی حیثیت کی تھی پھر ان کو شہرت کی بلندیوں پر سرائیکی فلم ”دھیاں نمانڑیاں” نے پہنچایا ۔ وہ لاہور رہے لیکن عمر کا آخری حصہ انہوںنے ملتان میں گذارا، روزنامہ حق کے نام سے اخبار بھی شائع کرتے رہے۔ سرائیکی سے ان کی محبت پیدائشی تھی اور جھوک میں وہ وقتاً فوقتاً تشریف لاتے رہے۔
چند سال قبل جھوک سے انٹر ویو کے دوران قیصر ملک نے بتایا کہ میں سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ مجھے سرائیکی فلم سے اتنی شہرت ملے گی ، وہ بتا رہے تھے کہ یہ فلم اتفاقاً بہت قلیل وقت میں لکھی گئی ، وہ اس طرح کہ میں لاہور میں تھا ، ان دنوں فلموں کا بہت عروج تھا اور پاکستان میں فلموں کا سب سے بڑا مرکز لاہور ہی تھا، فلم ڈائریکٹر ہر وقت یہی سوچتے کہ فلم بینوں کو کوئی نئی چیز دیں ، یوں سمجھئے کہ نئے سے نئے فلمی آئیڈیاز کی دوڑ لگی ہوئی تھی ، پنجابی فلموں نے دھاک بٹھا رکھی تھی ، ایک دن عنایت حسین بھٹی صاحب کے پاس بیٹھے تھے ، انہوںنے کہا کہ سرائیکی فلم ہونی چاہیے ، ساتھ بیٹھے دوست نے کہا لکھے گا کون؟ بھٹی صاحب نے میری طرف اشارہ کر کے کہا ملک صاحب بیٹھے ہیں لکھنے والوں کی کوئی کمی نہیں۔ پھر انہوںنے مجھے کہا کہ کیا خیال ہے؟ میںنے کہا سئیں میرے لئے تو اعزاز اور خوشی کی بات ہے، انہوںنے کہا کہ کس موضوع پر ؟ میںنے کہا کہ ایک موضوع ہمارے علاقے میں وٹہ سٹہ ہے ، انہوں نے کہا کچھ لکھ کر دکھائیں ، میں نے وہیں پر نمونہ لکھ کر دکھایا ، انہوںنے کہا ”اوکے” ۔ پھر انہوںنے جیب سے رقم نکال کر مجھے دی اور کہا کہ کام شروع کریں بلکہ میرے گھر میں بیٹھ کر لکھیں تو مجھے خوشی ہوگی، میں نے چند دنوں میں فلم لکھ دی اور اس کے ساتھ ہی میں نے اس فلم کے کچھ گانے لکھے اور کچھ خواجہ فرید کی کافیاں، معمولی تبدیلی کے ساتھ اس میں شامل کیں اور ان کافیوں سے پہلے ڈوہڑوں کا ”تڑکا” شامل کیا تو بات بن گئی۔
اس کے بعد فلم سٹارز کا انتخاب اور پھر ہم وہ ٹیلنٹ تلاش کرنے لگے جو سرائیکی تلفظ کی ادائیگی کر سکیں ، اس مرحلے پر ہمیں بہت دقت ہوئی کہ لاہوری بیچارے سرائیکی تلفظ ادا نہ کر سکتے تھے ۔ البتہ نور جہاں اور افشاں نے تھوڑی محنت کے ساتھ سرائیکی تلفظ ادا کر لیا ، عنایت حسین بھٹی تو ویسے بھی سرائیکی علاقوں میں مجلسیں پڑھتے تھے اور وہ حسینی ڈوہڑے نہایت ہی محبت سے پڑھتے تھے اس لئے انہوںنے بحیثیت سنگر اور بحیثیت ہیرو اپنا کردار خوب نبھایا اور جب فلم سینمائوں پر آئی تو دھوم مچ گئی اور ایک ایک سینما پر کئی کئی ماہ تک یہ فلم چلتی رہی اور پھر یہ فلم پشتو اور سندھی میں بھی ڈب ہوئی ، وہاں بھی اس نے کامیابی کے ریکارڈ قائم کئے اور اس فلم کے ذریعے میرا بھی بہت نام ہو گیا اور پھر مجھے فلموں کا بہت کام ملا ،جب تک فلموں کا عروج رہا میں لاہور میں بہت مصروف رہا اور پھر جونہی فلمی دنیا زوال پذیر ہوئی تو میں بھی ملتان آ گیا۔
قیصر ملک خالص ملتانی تھے ، ان کے والد کا نام عبدالعزیز ملک تھا اور وہ عدالت میں کام کرتے تھے ، سرائیکی سے محبت ان کو ورثے میں ملی ، وہ بتاتے ہیں کہ ملتان اور اس کے آس پاس خوشی کے موقع پر تماشے ہوتے ، جو امیر لوگ تھے وہ تو شادیوں پر ملتان اور لاہور سے اداکارائوں کو منگواتے ، مجرے کراتے ، البتہ باقی سب لوگ ثقافتی پروگرام کراتے ، موسیقی کے پروگرام ہوتے اس میں کافیاں اور دوہڑے پڑھے جاتے خاص طور پر حسرت ملتانی کے سوالی جوابی دوہڑے ہوتے جسے میں بہت شوق سے سنتا اور یہی وجہ ہے کہ میں نے سرائیکی دوہڑے کی ایک کتاب بھی چھپوائی۔وہ بتاتے ہیں کہ مجھے سکول کے زمانے سے شاعری اور موسیقی کا شوق تھا اور میں کالج داخل ہوا تو وہاں اسٹیج ڈرامے بھی دیکھنا شروع کیے ، وہ بتاتے ہیں کہ میلوں ٹھیلوں میں جانے کا شوق مجھے بچپن سے تھا ، بہائو الحق سئیں کا میلہ ، شاہ شمس کا میلہ ، سخی سرور کے سنگ اور دوسرے اجتماعات میں میں شریک ہوتا ،میرے اس شوق نے مجھے ثقافتی دنیا سے وابستہ کر دیا اور میں خود ڈرامہ رائٹر بن گیا ، قیصر ملک بتاتے ہیں کہ میری پیدائش یکم دسمبر 1949ء کو اندرون پاک گیٹ محلہ جال ویڑھا میں ہوئی ، پاک گیٹ سکول سے پرائمری ، ہائی سکول نواں شہر سے میٹرک اور اسلامیہ کالج سے ایف اے کیا۔
قیصر ملک بتاتے تھے کہ میری پیدائش قیام پاکستان کے دو سال بعد ہوئی جب میں آٹھ دس سال کا ہوا تو ہمارے گھروںمیں تحریک پاکستان ، قیام پاکستان اور پھر ملتان سے جانے والے اور انڈیا سے آنے والوں کے تذکرے ہوتے ، گھر میں باتیں ہوتیں کہ یہ دکان فلاح ہندو کی تھی، یہ گھر فلاں کا تھا ، فلاں یہ کاروبار کرتا تھا ، فلاں یہ کرتا تھا ، ا سمیں خاص بات یہ تھی کہ ان باتوں میں جانے والوں کا گلہ میں نے کسی شخص کی زبان سے نہ سنا، جب میںنے ہوش سنبھالا تو مجھے یہ بات سمجھ آئی کہ چلے جانے والوں کی وجہ سے خلا پیدا ہوا ہے جسے پر ہونے میں بہت وقت لگے گا کہ وہ لوگ تعلیم، تجارت کے ساتھ ساتھ سماجی حوالے سے بھی بہت آگے تھے ۔میں نے اس موضوع پر فلم یا ڈرامہ لکھنا چاہتا تھا اور میں نے اس کا تذکرہ بھی کیا ،پھر یوں ہوا یہ خیال اصغر ندیم سید نے چرا لیا اور اس کاپی ٹی وی پر ڈرامہ مقبول ہوا، وہ یہ بھی بتاتے تھے کہ لاہور کی فلمی دنیا کو آسمان تک لے جانے میں ملتان کا بہت ہاتھ ہے، میں چھوٹا سا نام بندہ نا چیز (قیصر ملک) کا بھی ہے، انہوںنے کہا لاہور میں موسیقی سے وابستہ لوگ میڈم ثریا ملتانیکر کے نام کو چومتے ہیں کہ کلاسیکل میں اب باقی چند ہی نام ہیں۔
قیصر ملک نے زندگی کا بیشتر حصہ لاہور میں گزارا ، فلم اور آرٹ کے شعبے کی کوئی ایسی شخصیت نہ تھی جن سے ان کی ملاقات اور تعلق نہ ہو ، وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ قتیل شفائی اور احمد ندیم قاسمی سے میری بہت نیاز مندی تھی ، میں ان کے ساتھ اس لئے زیادہ اٹھتا بیٹھتا تھا کہ ادب میرے روح میں بسا ہوا تھا ، قتیل صاحب نے مجھے فیض احمد فیض سے ملوایا ، تعارف ہوا تو فیض صاحب نے کہا کہ فلم لکھنے کے ساتھ ساتھ کتاب بھی لکھو کہ فلم فلاپ ہو سکتی ہے کتاب زندہ رہتی ہے، آج میں سوچتا ہوں کہ فیض صاحب نے سچ ہی کہا تھا ۔ وہ اس بات کا بھی اعتراف کرتے تھے کہ وقتی طور پر ایک سرائیکی فلم مجھ سے لکھوا لی گئی اور شہرت بھی بہت ملی ، میںنے ڈرامے بھی بہت لکھے ، کشمیر پر بھی ڈرامے لکھے اور وہاں وہ ڈرامے بہت خوب چلے لیکن مجھے آج اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ کتاب کی اہمیت بہت زیادہ ہے ، وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ سرائیکی اخبار جھوک کے ساتھ ساتھ کتابوں کی اشاعت کا جو سلسلہ ہے وہ لائق صد تحسین ہے ۔ قیصر ملک اکثر جھوک کے دفتر میں آتے اور اپنی فلمی دنیا کی گزری یادوں کو تازہ کرتے ، وہ یہ بھی بتاتے کہ ملتان جب صوبہ تھا تو سب لوگ یہاں تھے، فنکار ،ہنر مند مگر جونہی ملتان پر قبضہ کر کے ملتان کو لاہور کا حصہ بنایا گیا تو سب وہاں چلے گئے کہ پیاسہ پانی کی طرف جاتا ہے، ان کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ ملتان اور سرائیکی خطے کو صوبہ اور اختیار ملنا چاہیے۔ ان سے ملاقاتوں کے دوران میں نے محسوس کیا کہ ان کو اپنی دھرتی، اپنی مٹی اور اپنی ماں بولی سے بہت محبت تھی ، میں سمجھتا ہوں کہ ایسے لوگ کبھی نہیں مرتے ، ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ، اپنی خوبصورت یادوں کے ساتھ۔