بابا عالمی دن کے نام

International Day

International Day

تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور
یہ سال 1701ء اپریل کی بات ہے، کچے مکان کے ٹھنڈے فرش پر کھجور کے پتوں سے بنی چٹائی بچھائے بیٹھا وقت کا بہت بڑا مفکر، دور اندیش دانشوریہ سوچ کر پریشان تھاکہ آنے والے جدید دور میں دانشور کیسا ہو گا؟ سال2017ء کے مفکر، دانشور، تجزیہ نگار، کالم نگار کی ترجیحات کیا ہوں گی؟ وہ اپنے دور کا بہت قابل شخص تھا، تب ماحول صاف شفاف، صحن کشادہ ہونے کے ساتھ لوگوں کے دل بھی کھلے ہوتے تھے۔

کم آبادی والے چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں بسنے والوں کے میڈیا کی غیرموجودگی میں بھی رابطے بہت مضبوط تھے،لوگ اپنے مسائل ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کرتبادلہ خیال کے بعد آسانی سے حل کر لیا کرتے، تنقید برائے تنقید نہ ہونے کے برابرجبکہ بڑے بزرگوں کی بات کواہمیت دی جاتی تھی،کھجورکے پتوں سے بنی چٹائی اُس دورکی خوبصورت اورجدید ایجادات میں سے تھی ،وہ اسی چٹائی پربیٹھ کراردگرد کے دیہاتوں سے آنے والوں کے مسائل بڑے تحمل کے ساتھ سننے کے بعد اُن کوقابل عمل حل بتایاکرتا،دوردورتک لوگ اس کی دانشمندی کے قائل تھے ،ستربرس تک وہ لوگوں کے مسائل حل کرنے کے ساتھ مستقبل کے دانشورکے متعلق سوچتارہا،نئے دورکے دانشورکی بے بسی ،بے حسی،بے ضمیری کی فکرنے آخرکاراُسے لوگوں سے دورکردیا،یہ ایک مشکل وقت اورکڑافیصلہ تھا71برس کی عمر میں اُس نے لوگوں کے مسائل سننے بندکردیئے ،تمام ترمعاملات سے لاتعلق ہوکرتنہائی کاانتخاب کرنے کامقصدیہ تھاکہ سال2017ء کے دانشورکیلئے کوئی ایسی چیزدریافت کی جائے کہ اُسے فکر،دانش یادوراندیشی جیسی صلاحیات نہ ہونے کے باوجودشہرت کی بلندیاںحاصل رہیں،ٹی وی چینلزپربیٹھ کرتبصرے پیش کرے،اخبارات کے ارواق سیاہ کرے،حاکمین وقت کی خوشامدزیادہ خوبصورت اندازمیں کرسکے ،9سال کی مسلسل محنت،سوچ،عالم تنہائی کا ثمراسے تب حاصل ہواجب اس نے 80برس کی عمر میں ایک ایسا نقطہ دریافت کرلیاجوآئندہ قیامت تک بغیردانش،دانشورپیداکرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

لہٰذا اس نے قیدتنہائی ترک کرتے ہوئے لوگوں سے ملاقات کا سلسلہ بحال کیاتواردگرددیہاتوں کے لوگ قافلوں کی صورت اُمڈ آئے،اُس نے لوگوں کوبتایاکہ اب ہم بہت سارے مسائل اورمعاملات کاعالمی دن مناکرحل تلاش کریں گے،تب لوگوں کے مسائل بھی بہت سادہ تھے ،جیساکہ بارش نہ ہونے کی صورت میں کون سی فصل بوئی جائے،گائے کے بچہ پیدانہ ہوتوکیاکیاجائے ،سفرپرنکلتے وقت کیاسامان ساتھ رکھاجائے وغیرہ وغیرہ،مسائل کی مناسبت سے اُس نے عالمی دن منانے کا اعلان کردیا،شروع شروع میں لوگوں نے بھینس کاعالمی دن ،جوہڑ کاعالمی دن،سفرکاعالمی،قحط کاعالمی دن ،حقے کاعالمی دن،چولہے کاعالمی دن،گنے کا عالمی کا دن،مکھی کا عالمی دن ،تربوزکاعالمی دن،لوٹااُس وقت غیرسیاسی ہونے کے باوجود بہت اہم تھا اس لئے لوٹے کاعالمی دن،پھوپھی ،چچا،ماموں،تایا کاعالمی ،بیل کاعالمی دن وغیرہ وغیرہ،اس اعلان کے بعد لوگوں نے اُس دوراندیش دانشورکوباباعالمی دن کاخطاب دے دیا،سب سے پہلے دوراندیشی کاعالمی دن منایاگیا ،باباعالمی دن نے اس موقع پر خطاب میں 2017ء کانقشہ کچھ اس طرح کھینچا،ٹی وی چینلز کی بھرمارہوگی،اخبارات،ان گنت ہوں گے،ہرگھرمیں تین سے چارصحافی یک وقت رہیں گے،ہرشخص تجزیہ نگارہوگا،مفادپرست اورشہرت کے بھوکوں کے ہاتھوں میڈیاغلام ہوگا،حق اورسچ نایاب ہوگا۔

بے باک صحافت کے علم بردارصحافی بے ضمیراورقلم فروش ہوں گے،ادارتی صفحہ کی ٹیم ادارے کی شہرت کے حساب سے سطورفروخت کرے گی،چائے کی پیالی،پانچ سیرگڑ،دس سیرچاول ،بیس کلو گھنا،آدھاکلوشہد ،پانچ سووالا سُپرکارڈ،دوسیردیسی گھی وغیرہ سے لے کردوچار مرلے پلاٹ کے تحفے کے بعد ہرقسم کی تحریر کالم بن کراخبارکے ادارتی صفحہ کی زینت بنے گی،دین و دنیا،ملک و ملت کی فکرسے ناآشناایڈیٹرزکم کپڑوں والی خواتین کی تصاویرشائع کرنے کوترجیح دیاکریں گے،چند مشہورکالم نگارمنفرداندازبرقراررکھنے کیلئے راقم امتیازعلی شاکرکی طرح 1701ء ،1205ئ یااس سے بھی پرانے دورکے باباعالمی دن جیسے گڑے مردے اکھاڑکرپیش کریں گے،نہ کوئی 1701ء میں جائے نہ سچ اورجھوٹ کافرق ظاہرہو،قاری ہرجھوٹ کوعلم و دانش کے بلندی تسلیم کرے گا،ان دانشوروں میں معصوم ترین تجزیہ نگارعالمی دنوں کے سہارے اپنی دانشوری کوزندہ رکھیں گے،یہ وہ لوگ ہوں گے جن کودورحاضرمیں سسکتی بلکتی انسانیت سے کوئی غرض نہ ہوگی،ملک شام میںزہریلی گیس کے حملوں میں معصوم بچے تڑپ تڑپ کرمرتے رہیں،کشمیری مسلمانوں کی بھارتی درندوں کے ہاتھوں جان و مال اور عزتیں پامال ہوتی رہیں،اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمران بھگوان،ایشور کواللہ کا شریک ٹھہراتے رہیں،ملکی آئین قرآن وسنت کے تابع ہواورصدرعلماء اسلام کو سود کیلئے گنجائش پیداکرنے کامشورہ دیتارہے ،دنیادہشتگردی کی ہاتھوں یرغمال ہوجائے،پاکستان خودکش حملوں کی زد میں رہے۔

کرپشن ناسوربن جائے،بے حیائی کادوردورارہے،کچھ بھی ہوجائے یہ معصوم کالم نگارعالمی دنوں کاراگ الاپتے رہیں گے،عالمی دنوں کا ایک مقصد مختلف مسائل سے آگاہی تودوسرااہم مقصد ان معصوم دانشوروں کی دانشوری کوزندہ رکھناہوگا،دانشوروں کے بغیردنیاادھوری ہے اس لئے باباعالمی دن نے عالمی دنوں کی بنیادرکھ کر راقم جیسے کئی لکیرکے فقیروں کودانشوربنادیا،دن کاتوعلم نہیں مہینہ اپریل کاتھااس لئے ماہ اپریل باباعالمی دن کاعالمی مہینہ ہے اس لئے ایک تحریرباباعالمی دن کاشکریہ اداکرنے کیلئے باباعالمی دن کے نام،سلام باباعالمی دن آپ نے 1701ء میں ہمارے لئے اتنی سنجیدگی کے ساتھ نہ سوچاہوتاتوآج ہماری لئے مشکلات ہوتیں ،ہمیں نئے سرے سے حقائق و شواہد اکھٹے کرنے پڑتے ،ایک دوصدیاں پرانی بات کرنے کاایک فائدہ یہ بھی ہے کہ قاری کالم نگار کواعلیٰ تعلیم یافتہ ،تاریخ عالم کاواقف،دوراندیش اوروغیرہ وغیرہ سمجھتاہے،کالم نگار جس اندازمیں چارصدیاں پہلے کی بات شروع کرتاہے اس سے معلوم ہوتاجیسے وہ خوداُس دورمیں زندہ تھا،جیسے وہ سارے معاملات اُس کے سامنے روح پزیرہوئے ہوں،موجودہ دورکے حقائق و واقعات سے واقف ہونے کے باوجودوہ طویل تاریخ کے بے جان حوالے اس لئے بھی دیتاہے کہ قاری زیادہ سنجیدگی کے ساتھ تحریرپرغوروفکر کرے اورنتیجہ بھی ایساہی نکلتا ہے۔

باباعالمی دن کے پیرکاروں سے گزارش ہے کہ کچھ غوروفکرحالات حاضرہ پربھی رکھیں ،ماضی گزرچکا،حال گزررہاہے ،باباعالمی دن جیسی دوراندیشی اختیارنہ کی گئی توآنے نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی، وقت حاضرکاہم ترین تقاضہ یہ ہے کہ دانشورحق کی بات کریں ،بنیادی انسانی حقوق کی بات کریں ،بچے کی پیدائش اورپرورش کیلئے والد اوروالدہ دونوں ضروری ہیں ،ماں اورباپ کاالگ الگ عالمی دن منانے کی کیاضرورت ہے؟قحط زدہ علاقوں میں لوگ پانی کی بوند بوند کوترس رہے ہیں اوردانشوردریائوںسے آگاہی کے عالمی دن کے پس منظر،پیش منظر پرروشنی ڈالتے رہیں ،خداراحقیقت حال میں آئیں اورزمینی حقائق کے مطابق انسانی مشکلات کے حل تلاش کریں۔راقم کا مقصد تنقید یاکسی کی کردار کشی نہ ہے ،کسی کو بات پسند نہ آئے تووہ غوروفکر کے بعد خود سے معافی طلب کرے،خود سے معافی طلب کرنادنیاکاآسان ترین اور خود کومعاف کرنا مشکل ترین کام ہے ،اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم عطا فرماے(آمین)

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور
imtiazali470@gmail.com .
03134237099