تحریر : عابد علی یوسف زئی گذشتہ دنوں جمعیت علماء اسلام کے صد سالہ کانفرنس میں بطور میڈیا پرسن شرکت کا موقع ملا۔ مجھے چونکہ باقاعدہ طور پر سیاسی جلسوں اور محفلوں میں دلچسپی نہیں لیکن پھر بھی عمران خان کے ڈی چوک اسلام آباد کے دھرنے کا جھلک بھی دیکھ چکا ہوں اور دو ماہ پہلے لاہور میں بھی پی ٹی آئی کی ایک اکرنر میٹنگ کا وزٹ کیا تھا۔ تاہم مختلف سیاسی جماعتوں کے جلسوں اور پروگراموں کے ہائی لائٹس الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یا سوشل میڈیا کے ذریعے نظروں سے گزر جاتے ہیں۔
دنیا کے اکثر ممالک میں جمہوری نظام قائم ہے۔ اس نظام کے ذریعے عوام ووٹ کے طاقت سے اپنے لئے حکمران کا چناؤ کرتے ہیں۔ پاکستان بھی ان ممالک سے ایک ہے جہاں جمہوریت کا سکہ چل رہا ہے۔ وطن عزیز میں تقریبا ڈھائی سو سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں اور آئے روز ان میں اضافہ ہوتا جارہا ہیں۔ انتخابات کے ذریعے پانچ سال کے لئے نمائندوں کو منتخب کیا جاتا ہے لیکن بمشکل 70 سال میں صرف دو دفعہ اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی ہے۔ پھر الیکشن ہوتے ہیں، کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں اور نتیجہ وہی نکل آتا ہے۔
بات کہاں سے چلی تھی اور کہاں چلی گئی۔ جہاں سیاسی جماعتوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے وہاں ہر پارٹی نے اپنی طرز سیاست بھی تبدیل کرلی ہے۔ چند سال پہلے وجود میں آنے والی نومولود سیاسی جماعت نے پاکستان کی سیاست ہی بدل ڈالی۔ سولہ سال مسلسل شکست کے بعد جب 2013 میں ان کو ایک صوبے کی مخلوط حکومت مل گئی تو گویا کہ وہ ہوا ؤں میں اڑنے لگے۔ طرز حکمرانی تو ان کو آتی نہ تھی، دھرنوں سے اپنے حکومت کا آغاز کیا اور بیچ روڈ میں شرفاء کے عزتوں کا جنازہ نکال دیا۔ میوزک ایسی کہ کانوکان اواز سنائی نہ دیں۔ مخلوط مجلسیں اور ناچ گانا ان کے جلسوں کا اہم حصہ ہوتا ہے۔ ہمارا نوجوان نا سمجھ طبقہ ان رونقوں کو دیکھ کر ان کے پیچھے چلا جاتا ہے اور اخرت میں سامان عذاب کر لیتا ہے۔
جمعیت کی صد سالہ کانفرنس تین دن تک جاری رہی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں کسی سیاسی اجتماع میں شریک ہوا اور مسلسل تین دن تک وہاں پر موجود رہا۔ اجتماع کی اہم باتوں میں سے سب سے بڑی بات یہ تھی کہ تین دن باقاعدہ نماز با جماعت ادا کی گئی۔اجتماع کے پہلے روز امام کعبہ شیخ محمد ابراہیم نے مختصر خطاب کے بعد خطبہ پڑھا اور نماز جمعہ کی امامت کی۔ بعد میں دنیا بھر سے آئے ہوئے جید علمائے کرام اور تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سمیت جمعیت علماء اسلام کے قائدین نے خطاب کیا۔ امام کعبہ اور مہتمم دار العلوم دیو بند سمیت دنیا بھر کے مختلف جید علماء کرام کے بیانات ہوئے۔ پاکستان کے اکثر سیاسی جماعتوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ اقلیتی فرقوں کو سٹیج پر جگہ دی گئی تھی۔ مختلف فرقوں کے نمائندوں کو یکجا کیا گیا۔ جمعیت علماء اسلام کے عہدہ داران اور نمائندوں نے قومی وحدت اور یکجہتی کی بات کی۔
جمعیت کے صد سالہ اجتماع میں جمعیت علماء اسلام کے خدمات، اکابر علماء کرام کی قربانیاں اور وطن عزیز سمیت دنیا بھر میں امن کا پیغام عام کرنے کے لئے علماء کے کردار کو سراہا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اتنے عظیم اجتماع کا مقصد محض سیاسی مقصد نہیں بلکہ راکنان کی روحانی اور علمی تربیت تھی۔ اس اجتماع میں تمام سیاسی جماعتوں نے جمعیت علماء اسلام اور مولانا فضل الرحمن کی سیاست کو سراہا اور اتنے عظیم اجتماع کے انعقاد پر انہیں مبارک باد پیش کی۔
جمعیت کی صد سالہ اجتماع کی میزبانی کے پی کے کو دی گئی تھی۔ صوبائی امیر مولانا گل نصیب خان کو مرکزی کابینہ اور قائد نے خراج تحسین پیش کیا گیا جبکہ صوبائی امیر نے اپنے شوری اور بالخصوص حاجی اسحاق زاہد کا شکریہ ادا کیا۔ ہمیشہ یہ بات سننے میں آئی ہے کہ ناکامی کا کچرا دوسروں پر ڈالاجاتا ہے۔ یہاں معاملہ الٹ تھا۔ ستر لاکھ افراد جمع کرنا اور اتنا کامیاب اجتماع منعقد کرانے کا کریڈٹ ہر ایک دوسرے کو دے رہا تھا۔
اتنے عظیم اجتماع کے دوران میڈیا کے کردار کو اگر ذکر نہ کیا گیا تو نا انصافی ہوگی۔ سوشل میڈیا سمیت پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے اجتماع کی کوریج کرکے دنیا کو دکھا یا اور انہیں یہ پیغام دیا کہ مسلمان اور پاکستانی قوم دہشت گرد نہیں ایک پر امن قوم ہے۔ اسلامک رائٹر فورم کی ٹیم نے بھی اس موقع پر اپنی خدمات کے ذریعے یہ ثابت کردیا کہ دنیا بھر میں اسلام کا اصل چہرہ دکھانے کے لیے واقعی یہ کردار ادا کر رہے ہیں۔
اجتماع کے دوران کوئی بھی نا خوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ تمام کارکنان نے پر سکون طریقے سے تین دن اجتماع گاہ میں گزارے۔ یوں سہ روزہ اجتماع بخیر و عافیت اختتام کو پہنچا۔