اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ بری فوج کے سابق سپہ سالار راحیل شریف کو سعودی عرب کی زیر قیادت مسلم ملکوں کے فوجی اتحاد کی سربراہی کی اجازت تاحال نہیں دی گئی اور ان کے بقول ایسا پارلیمان کو اعتماد میں لے کر ہی کیا جائے گا۔
گزشتہ ہفتے ہی وزیر دفاع نے مختلف نجی ٹی وی چینلز پر یہ کہا تھا کہ سعودی عرب نے جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کی خدمات حاصل کرنے کی پاکستان سے باضابطہ درخواست کی تھی جسے منظور کر لیا گیا اور دو حکومتوں کی رضامندی کے بعد بظاہر سابق آرمی چیف کے لیے یہ نیا منصب سنبھالنے میں ضابطے کی کوئی کارروائی باقی نہیں رہتی۔
لیکن ان کے اس بیان کے بعد نہ صرف حزب مخالف بلکہ پڑوسی ملک ایران کی طرف سے تشویش اور تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
30 سے زائد مسلم ممالک کے اس فوجی اتحاد میں سعودی عرب کا حریف ایران اور بعض دیگر شیعہ ریاستیں شامل نہیں ہیں اور ایک سابق پاکستانی جنرل کو اتحاد کی قیادت سونپے جانے سے پاکستان کے سفارتی مشکلات کا خدشہ ظاہر کیا گیا۔
لیکن منگل کو ایوان بالا “سینیٹ” میں پالیسی بیان دیتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان نے ایران کے تحفظات کو دور کیا ہے اور ابھی راحیل شریف کو این او سی جاری نہیں کیا گیا۔
“جب (مسلم فوجی اتحاد کے) کے خدوخال سامنے آئیں گے تو میں بالکل ایوان میں حاظر ہوں گا اس کے خدوخال بیان کروں گا کہ اس اتحاد کے مقاصد کیا ہیں اس کا ضابطہ کار کیا اور جب جنرل راحیل کو این او سی دیا جائے گا میں وہ بھی ایوان کے علم میں لے کر آؤں گا۔ ایوان کے علم میں لائے بغیر اس سے بالا بالا کچھ نہیں کریں گے۔”
حزب مخالف خصوصاً پاکستان تحریک انصاف یہ کہہ کر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہے کہ اس اتحاد میں شمولیت اور پھر راحیل شریف کو اس کی سربراہی کے لیے اجازت دینے سے متعلق پارلیمان کو آگاہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس معاملے پر قانون سازوں کو اعتماد میں لیا گیا۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ یمن کے تنازع سے متعلق پارلیمان کی منظور کی گئی قرار داد پر عمل کیا جائے گا اور پاکستان تنازع کے حل میں سفارتی کردار ادا کرے گا۔
یمن میں شیعہ حوثی باغیوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے جو گزشتہ دو سالوں سے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کے خلاف سرگرم ہیں جب کہ سعودی عرب اپنے خلیجی اتحادی کے ساتھ مل کر عرب دنیا کے اس پسماندہ ترین ملک میں ان باغیوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔
پاکستانی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ حکومت اس تنازع میں جانبداری کی بجائے صلح صفائی کے لیے کردار ادا کرنے کے عزم پر قائم ہے۔