تحریر : علی عبداللہ سماجی تعلقات کی مشہور زمانہ ویب سائٹ فیس بک کے نام سے کون واقف نہیں؟ 2004 میں وجود میں آنے والی اس ویب سائٹ نے سوشل میڈیا کو ایک نئے رنگ میں ڈھال دیا ہے۔ زندگی کے تمام شعبوں سے تعلقات رکھنے والے افراد فیس بک کا استعمال کرتے ہیں _ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم بن چکا ہے جہاں لوگ صرف اپنے شوق اور معمولات زندگی کو ہی زیر بحث نہیں لاتے بلکہ اب اسے مذہبی اور سیاسی نظریات کے پرچار کا بہترین ذریعہ بنا لیا گیا ہے _ فیس بک کی رپورٹ کے مطابق پوری دنیا سے ماہانہ 1…18 بلین لوگ فیس بک کو استعمال کرتے ہیں _ اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فیس بک آزادی رائے کے نام پر جغرافیائی تعصب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تمام افراد کو اپنے علاقائی و ثقافتی موضوعات پر گفتگو کا منصفانہ موقعہ فراہم کرتی لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا _ فیس بک جانبدارانہ رویہ رکھتے ہوئے مسلسل کچھ ممالک جن میں اسرائیل سرفہرست ہے کو صارفین کی ذاتی معلومات فراہم کرنے میں ملوث پائی گئی ہے۔
2015 اور 2016 کے درمیان اسرائیل نے 400 فلسطینیوں کو گرفتار کیا جن کے بارے میں اسرائیلی حکومت کا کہنا تھا کہ ان لوگوں نے فیس بک پر اسرائیل مخالف نفرت انگیز مواد پھیلایا ہے _ اس سے پہلے فلسطین کی مشہور شاعرہ دارین ٹے ٹور کو اسرائیل مخالف نظم فیس بک پر پوسٹ کرنے کے الزام میں آٹھ سال کی قید سنائی گئی تھی _ فیس بک مسلسل اسرائیلی حکومت کے ساتھ تعاون میں شریک ہے اور ہر اسرائیل مخالف پوسٹ کو فیس بک سے ہٹانے کی پالیسی پر کاربند ہے _ اسی سلسلے میں مارچ میں مشہور فلسطینی تنظیم الفتح کے آفیشل پیج کو فیس بک انتظامیہ نے صرف اس بنیاد پہ بلاک کر دیا تھا کہ اس پیج پہ سابق فلسطینی رہنما یاسر عرفات کو بندوق لہراتے ہوئے دکھایا گیا تھا _ صرف یہی نہیں بلکہ نیویارک ڈسٹرکٹ کورٹ میں ایک کیس چل رہا ہے جس میں 20000 اسرائیلیوں کی جانب سے فیس بک کو فلسطینیوں کے تمام پیج بلاک کرنے کی درخواست کی گئی تھی تاکہ اسرائیل مخالف نظریات و بیانات کا پرچار نہ ہو سکے۔
دوسری جانب اسرائیلی عہدیداروں سمیت کئی اسرائیلی روزانہ کی بنیاد پر فلسطین مخالف مواد فیس بک پر اپلوڈ کرتے ہیں _ 2014 میں غزہ پر بمباری سے پہلے شدت پسند تنظیم سے تعلق رکھنے والی اسرائیلی رکن اسمبلی ایلات شیکڈ نے فیس بک پر میسج کیا جس میں کہا گیا تھا کہ “فلسطینی مجاہدوں کی ماؤں کو قتل اور ان کے گھروں کو آگ لگا دینی چاہیے ” _ اس نفرت انگیز بیان پر نہ تو فیس بک نے کسی ردعمل کا اظہار کیا اور نہ ہی اسرائیلی حکومت نے کوئی ایکشن لیا _آجکل وہی رکن اسمبلی اسرائیل کی وزیر انصاف کے عہدے پر فائز ہیں _ عرب سینٹر فار سوشل میڈیا ایڈوانسمنٹ کے مطابق اسرائیلی یہودیوں کی جانب سے تعصب انگیز مواد والی فیس بک پوسٹس میں 2015 کی نسبت 2016 میں دوگنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جن کی تعداد تقریباً 675000 ہے _ بعض پوسٹس میں تو انتہائی نفرت انگیز اور شدت پسندانہ رویہ ظاہر کیا گیا ہے مثال کے طور پر ایک پوسٹ میں کہا گیا کہ” تمام عربوں کا ریپ کر کے انہیں سمندر میں پھینک دینا چاہیے “_ اسی طرح ایک اور پوسٹ میں کہا گیا تھا کہ “اس صبح میں عربوں کو ذبح کرنے کی بہت توانائی محسوس کی جا رہی ہے ” اس سب کھلے عام پیغامات کے باوجود کوئی ایک کیس بھی اسرائیل کے خلاف فیس بک نے رپورٹ نہیں کیا۔
فیس بک نے کبھی بھی اپنی سنسر شپ پالیسی اور فیس بک صارفین کی ذاتی معلومات مختلف حکومتوں کو دینے کا طریقہ کار واضح نہیں کیا _ لیکن فیس بک نے جنوری 2016 سے جون 2017 کے درمیان اسرائیل کی 70 فیصد ان درخواستوں پر عمل کیا جن میں صارفین کا ڈیٹا مانگا گیا تھا _ اسرائیل فیس بک پر مختلف طریقوں سے دباؤ ڈال رہا ہے _ یہ دباؤ ان قوانین کی شکل میں ہے جن کے ذریعے کوئی بھی کمپنی صارف کا ڈیٹا دینے کی پابند ہو سکتی ہے _ علاوہ ازیں فیس بک اب اسرائیل کی مغربی کنارے غیر قانونی یہودی آباد کاری کے اشتہارات اپنی ویب سائٹ پر پوسٹ کرنے کا مجاز ہو گا۔
فیس بک کا کہنا ہے کہ ان کی پالیسیاں بغیر کسی تعصب کے سب کے لیے برابر ہیں لیکن مندرجہ بالا حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ فیس بک مسلمل دوغلی پالیسیوں کے طریقے پر کاربند ہے اور فلسطینیوں کے معاملے میں آزادی رائے کی پابندی اور اسرائیل کے لیے کھلی چھوٹ اس بات کو مزید تقویت دیتی ہے کہ فیس بک اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے حقوق سلب کرنے کی منصوبہ بندی میں برابر کی حصہ دار ہے۔