تحریر : عماد ظفر مشعال خان نامی 23 سالہ نوجوان عبدالولی خان یونیورسٹی، مردان میں توہین مزہب کے الزام میں مارا گیا. اس پر اور اس کے ایک ساتھی پر شبہ یا الزام تھا کہ وہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد نشر کرتے تھے یا توہین آمیز پیجز چلاتے تھے. نہ اس الزام کی کوئی تحقیق ہوئی نہ ہی کوئی گواہ سامنے آیا اور نہ ہی کسی عدالت میں ان کی شنوائی ہوئی. سیدھا سیدھا چند لوگوں نے الزام لگایا اور ہزاروں کے جتھے نے مشعال خان کو بے رحمانہ طریقے سے قتل کر دیا.جس سفاک طریقے سے مشعال خان کی جان لی گئی اس کا ذکر الفاظ میں کرنا ناممکن ہے.
شاید پتھر کے دور کے بسنے والے انسان بھی اس قدر بے رحمی اور بربریت کا مظائرہ نہیں کرتے ہوں گے جو کہ مردان کی اس یونیورسٹی میں نظر آیا. اس طالبعلم کا قتل دراصل ہمارے معاشرے کا وہ بھیانک اور سیاہ چہرہ پے جسے ہم میں سے کوئی بھی نہیں دیکھنا چاہتا کیونکہ اس چہرے میں ہم سب کا عکس موجود ہے. اس عکس کو نہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں اور نہ ہی شاید دیکھ پائیں گے .یہ واقعہ ہمیشہ کی طرح مین سٹریم میڈیا میں تقریبا بلیک آؤٹ کر دیا گیا.کسی صحافت کے علمبردار ،کسی خود ساختہ سچائی کے علم کو اٹھائے اینکر کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اس واقعہ اور اس کے محرکات و اسباب پر ایک پروگرام یا ایک تجزیہ ہی کر دیتا.چند لمحات کی خبر اور ایک آدھ تبصرہ اور پھر معمول کے مطابق وہی بے معنی باتیں اور سیاسی مباحث میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئے. ہم جس عہد میں جی رہے ہیں اس کا المیہ یہ ہے کہ صحافت، دانشوری اور اخلاقیات کے علم اٹھائے ہوئے زیادہ تر افراد عقائد اور تعصبات کی عینک لگائے ایسے واقعات کو یا تو سرے سے ہی قابل تجزیہ یا قابل بحث ہی نہیں سمجھتے یا پھر ان واقعات کو ذاتی افعال قرار دیکر اصل مدعے پر مٹی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں.حالانکہ دانشور ور تو دور کی بات ایک ایک انسان دراصل انسان کہلانے کے قابل اسی وقت ہوتا ہے جب وہ سوچنے سمجھنے اور دوسرے انسانوں سے محبت کرنے کی اہلیت رکھتا ہو.
بنا کدی تعصب کی پٹی باندھے دنیا کو دیکھ اور پرکھ سکتا ہو.جس معاشرے کے خمیر میں نفرت اور تعصب کی مٹی گوندھی ہوئی ہو جس معاشرے میں اختلاف رائے کا رکھنا ایک ناقابل معافی جرم ہووہاں ایسے ہی بھیڑیے اور زہنی مریض جنم لیتے ہیں جو بنا سوچے سمجھے اپنی اپنی نفسیاتی اور معاشرتی محرومیوں کا غصہ مذہب قومیت رنگ نسل کی بنیاد پر اتارتے ہیں. حقیقتوں سے فرار اور ایک تصوراتی دنیا میں بسنے کی اجتماعی عادت کی ایک بے حد بھاری قیمت ہوتی ہے جو معاشروں کو ادا کرنی پڑتی ہے. اپنے عقائد سے محبت کا اظہار یا مقدس ہستیوں سے عقیدت کا اظہار عملی طور پر عقائد یا مقدس شخصیات کی دی گئی تعملیمات کو لاگو کر کے دیا جا سکتا ہے.اس کے برعکس یہ بے حد آسان کام ہے کہ کسی بھی شخص کو سینکڑوں ہزاروں افراد کا جتھا توہین مزہب کے نام پر قتل کر دے .جبکہ وہ تعلیمات یا ضابطہ حیات جو کہ ان مقدس شخصیات یا مذاہب کا عطا کردہ ہوتا پے اس پر عمل کرنا بے حد مشکل ہوتا ہے.
ادوایات میں ملاوٹ اشیائے خوردونوش کی اندوزی، نوکری پیشے ہا کاروبار میں جھوٹ فریب ،دھوکہ دہی، بے ایمانی اور اپنی اپنی بساط کے مطابق ہر ممکن طریقے سے کرپشن کرنے والا معاشرہ کس منہ سے مذہب کی پاسداری کی بات کرتا ہے یہ بات سمجھ سے بالکل باہر ہے. انسان کو بنا صفائی کا موقع دیے بنا اس کو قتل کرنے سے مزہب کو کیسے بچایا جاتا ہے یہ نکتہ بھی فہم سے بالاتر ہے. ہمارے ہاں تو ویسے بھی توہین مزہب یا مقدس ہستیوں کی توہین کے حوالے سے قوانین موجود ہیں اور اگر کوئی شخص اس جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کو سزا دینے کا پورا نظام وضع ہے. پھر اس نظام کی موجودگی میں قانون کو ہاتھ میں لے کر خود سے انصاف کرنے والے جتھوں کی یا اشخاص کی اس حرکت کے پیچھے کیا محرکات ہو سکتے ہیں؟ اس کا جواب جاننے کیلئے سماجی ڈھانچے کے بغور مطالعے کی اشد ضرورت ہے. ریاست پاکستان نے قیام پاکستان کے بعد سماجی ڈھانچے کی تشکیل کیلئے جو بیانیہ تشکیل دیا تھا اس میں مذہبی بیانیے کی چھاپ یا سماجی ڈھانچے کو از خود مذہبی بیانیے کے تابع کرنے کی کوشش میں نہ تو ایک باہم اور مربوط سماجی ڈھانچہ تشکیل پا سکا اور نہ ہی ایک متقفہ مزہبی بیانیہ تشکیل کیا جا سکا. ایک سماج کے اندر مختلف عقائد اور نظریات رکھنے والے افراد کا بسنا ایک انتہائی عام سی بات ہے ایسے میں جدید ریاست سماجی ڈھانچے کی تشکیل یا تشکیل نو کرتے ہوئے سماج میں بسنے والے ہر شخص کی ریاست سے وابستگی اور اپنے عقائد یا نظریات کے مطابق زندگی بسر کرنے کیلیے مزہبی بیانیے کو سماجی ڈھانچے کی تشکیل یا سماجی ڈھانچے کے بیانیے سے دور رکھتی ہے.
اس کا مقصد اس امر کو ممکن بنانا ہوتا ہے کہ سماج میں ایک باہم ہم آہنگی پیدا ہو اور عقائد یا نظریات میں اختلافات ہونے کے باوجود سماج میں موجود ہر طبقہ فکر یا عقیدے سے وابستہ افراد کو آزادی سے پھلنے پھولنے کا موقع ملے.جدید ریاست کے تصور اور اکیسویں صدی کے تصور کے مطابق ریاست عقائد کے حوالے سے شہریوں میں تمیز یا تفریق نہیں کرتی اور سماج میں موجود ہر طبقہ فکر کو اظہار رائے سے لیکر زندگی آزادی سے بتانے کے باہم مواقع فراہم کرتی ہے. قیام پاکستان سے لیکر آج تک ہمارے ہاں کبھی بھی جدید بنیادوں پر ریاست کے سماج کے حوالے سے کردار کو نہ تو سمجھا گیا اور نہ ہیاس ضمن میں کوئی کاوش کی گئی. معاشرتی علوم کی کتابوں سے لیکر سائنس کی نصابی کتابوں تک کو مزہبی اور قومی نرگسیت کے بیانیے کی تشکیل کیلیے استعمال کیا گیا. نتیجتا سماج میں شدت پسندی میں اضافہ ہوا اور ایک مخصوص طبقہ فکر جو کہ زمانہ جدید کے تقاضوں سے اور رموز سے بالکل نابلد تھا اس نے ہر میدان میں شدت پسندی تعصب اور نفرت کے بیج بو دیے.
اس سماجی ڈھانچے سے جب تک مزہبی بیانیے کو جدا کر کے ایک انسان دوست معاشرے کی تشکیل کی جانب قدم نہیں بڑھایا جائے گا تب تک مشال خان جیسے بچے مارے جائیں گے. سماجی گھٹن کا شکار محرومیوں کی گھٹڑیوں کا بوجھ اٹھائے برین واش انسان نما زومبیز اپنے اندر کی حیوانیت اور محرومیوں کا اظہار کبھی توہین مزہب کے نام پر کبھی فرقہ واریت کے نام پر اور کبھی قومیت کے نام پر سماج میں بسنے والے دوسرے کمزور افراد کو خون میں نہلا کر کرتے رہیں گے. توہین مزہب کا قانون اسی لیئے بنایا گیا تھا کہ کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص کے مزہب یا فرقہ کی دل آزاری مت کرے.لیکن اس قانون کا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا کہ اس کا سہارا لیکر سماج میں بسنے واکی اقلیتوں مختلف عقائد یا پھر ایسے افراد جو کہ سس حوالے سے اپنا نظریہ الگ رکھتے ہیں ان کو زاتی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے بے رحمی سے قتل کر دیا جائے.
مشعال خان جیسے بچے امن و محبت اور زندگی کے مختلف اور خوبصورت رنگوں کا نمونہ ہوتے ہیں.یہ بچے جو سوالات اٹھاتے ہیں یا تنقید کرتے ہیں وہ سماج کی فکری بلوغت کیلیے خلیفہ کردار ادا کرتی ہے. جبکہ مزہب اور عقائد کے نام پر تشدد کا پرچار کرنے والے دراصل سماج میں تعفن پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں. کاش مـاہب اور عقائد کے نام پر نفرتوں کا پرچار کرنے والوں کی سرکاری سرپرستی ختم ہو سکے تا کہ ہم مشعال خان جیسے بچوں کو بربریت کا شکار ہونے سے بچا سکیں. یہ بچے ہمارا آنے والا مستقبل ہیں جبکہ سوچنے سمجنے کی نعمروں سے نابلد نفرتوں کا زہر پھیلاتے افراد اس روشن مستقبل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں.اپنے مستقبل کو بچانے کیلئے ریاست کو اپنا کردار اور بطور معاشرہ ہمیں اپنی اپنی زمہ داری نبھانے کی اشد ضرورت ہے ایسا نہ ہو کہ کل آپ کا یا میرا بچہ بھی نفرتوں کے اس اندھے پن کا شکار ہو جائے اور ہم مشعال خان کے والدین کی طرح بے بسی سے ہاتھ ملنے یا تاسف کرتے ہوئے اس ناقابل برداشت دکھ کا بوجھ باقی ماندہ زندگی میں اٹھاتے پھریں.