تحریر : حافظ شاہد پرویز انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق کام کرنے کے دعوے کرپشن سے پاک ماحول کو رکھنے کے دعویداروں اور بڑے بڑے بلندو بانگ دعوے کرنے والے افراد بھی بسا اوقات انصاف کی فراہمی کیلئے وڈیرہ ازم سیاسی کلچر اور پریشر کے دبدبے کے نیچے پھنس کر اپنے ہاتھ اور زبان خاموش کرنے پر مجبور ہوتے ہوئے انصاف حاصل کرنے والے افراد کا ساتھ دینے سے کترانے لگتے ہیں۔ بد قسمتی سے پاکستا ن کا معاشرہ آج کئی کمزوریوں اور مصالحتی عوامل کی مٹھی میں بند ہونے پر مجبور ہو جاتا ہے اورتھانہ کلچر نے عام آدمی کو انصاف کی فراہمی کیلئے بڑے پیمانے پردھکے کھانا پڑتے ہیں۔پنجاب میں فرنٹ ڈیسک کے قیام کے بعد بھی تھانوں کے ماحول کو میرٹ کی بنیادوں پر نہیں لایا جا سکا۔جس کے پیچھے پولیس کے ایس ایچ اوزانسپکٹر کی ذاتی کرپشن کی بلیک میلنگ ‘ انہیں بسا اوقات ان کے علاقہ کے بڑے منشیات فروشوں ‘ بڑے رسہ گیروں اور بڑے ڈکیتوں کے سامنے سر جھکانے پر مجبور کر دیتے ہیں یا پھر علاقہ کی سیاسی شخصیات ایم این ایز اور ایم پی ایز کی غلامی کرنا آج بھی شاید ان کے وطیرے میں شامل ہے۔ جس کی وجہ سے چھوٹے طبقات اور اثر و رسوخ نہ رکھنے والے افراد بعض اوقات انصاف کی فراہمی کیلئے تھانوں کے چکر لگانے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور بالآخر انہیں اپنے گھر کے رستے کو واپس جانا پڑتا ہے۔
پولیس کے کئی ایسے ادارے کے جن کا کام حقیقت کی بنیادوں پر رپورٹنگ کرنا اور خفیہ انداز میں کرپٹ عناصر اور ریاست کے خلاف اقدامات اٹھانے والے عناصر کی آگاہی رپورٹس حکومت پنجاب کو فراہم کرنا ہوتی ہے ۔ بسا اوقات وہ بھی چوروں ‘ ڈکیتوںاور رسہ گیروں کی امداد کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جن کے پس پشت ان کے اپنے ذاتی اور مقامی مفادات کاہونے کے اثرات موجود ہوتے ہیں۔
ریاستی اداروں کو مصالحتی عمل کے ذریعے لڑائی اور جھگڑوں کو ختم کرنے کے لئے اقدامات کرنا بے شک انتہائی ضروری ہے لیکن نوسرباز گروہوں اور چوروں اور ڈکیتوں کے ہاتھ پھیلانا اور مظلوم افراد کیلئے اقدامات کرنے کی بجائے ان کے ساتھ کئے گئے ظلم کے ازالہ کو روکنے کیلئے کوشش کرنا قابل شرم اور قابل مذمت معاملات ہیں۔معاشرے کی پنچائت اور وڈیرے سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کی بات کو ترجیحات میں شامل رکھتے ہوئے پسے ہوئے افراد کی بات سننے سے قاصر رہتے ہیں جس کی وجہ سے فرنٹ ڈیسک کے قیام کے بعد بھی تھانہ کلچر میں متعدد ایسی درخواستیں نمٹائی جا رہی ہیں کہ جن کے جوابات مدعی کو اعتماد میں لئے بغیر غیر فطری معاملات کو پروان چڑھایا جا رہا ہوتاہے اور ملزم کو دادر سی کرتے ہوئے اس کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہوتی ہے۔
انصاف کے حصول کیلئے بعض دفعہ کئی ایسے معاملات میں ایک غریب آدمی کو چور ڈکیت اور رسہ گیر کادھبہ لگا کر جیل میں ڈال دیا جاتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں دولت یا چودھراہٹ کی چمک رکھنے والے افراد کو رسہ گیر چور اور دیگر الزامات کے باوجود منصف کی سیٹ پر بٹھا کر تھانہ کلچر میں اسے پروٹوکول دیا جاتا ہے جس کے باعث پسے ہوئے طبقات میں سچائی بولنے کی خواہش رکھنے والے افراد خاموش رہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
منڈی بہاؤالدین پولیس نے چند ایسے واقعات دیکھنے کو ملے کہ جس میں تھانہ کی سطح پر حقیقت سے مختلف معاملات کو دیکھا گیا اور انصاف کے حصول کیلئے ڈسٹرکٹ پولیس آفس کے دروازے کو کھٹکھٹانے کی ضرورت پڑتی ہے جہاں پر کسی بڑی سفارش کے بعد بڑے زور کے ساتھ انصاف کاحصول حاصل کرنے میں شاید کامیابی مل سکتی ہو لیکن پولیس کے معاملات کو جا بجا ایس ایچ اوز اپنی جیب خرچ چلانے کیلئے چودھراہٹ کے غلام کو پاکستان بننے سے لے کر آج تک رہے۔
پولیس کے افسران دوپہر کاکھانا کھانے کے عوض غریب طبقات کو لٹا کر جوتے مارنے کو بخوشی تسلیم کرتے رہے لیکن پولیس کے اندر خفیہ اداروں کی جانب سے کرپٹ عناصر کا ساتھ دینے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے جیسے معاملات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتاہے ۔ اگر انصاف کرنے والوں کا احتساب کرنے والے انہی افراد کو قانون اور انصاف سے ہٹ کر معاملات چلانے ‘ چور ڈکیت اور شرفاء کی پگڑیاں اچھالنے والے افراد کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کا ساتھ دیتے رہیں گے تو وہ خود کسی کااحتساب کرنے میں کیسے کامیاب ہو سکیں گے۔