بھوک ڈھلتی ہے جب تخیل میں چاہتوں کا نصاب کیا ہو گا اِک فسانہ کتاب کیا ہو گا وقت جو بھی کٹا ہے بِن تیرے اس سے بڑھ کر عذاب کیا ہو گا حرف و افکار کے جو دشمن ہیں ان سے رشتہ جناب کیا ہو گا اِس زمانے کے کم نگاہوں سے تیرا میرا حساب کیا ہو گا بھوک ڈھلتی ہے جب تخیّل میں ایسے فن کا جواب کیا ہو گا چشمِ مِینا سے جو چھلکتا ہے اس لہو کا عتاب کیا ہو گا جس میں ذوقِ نمو نہیں ساحل ایسے گُل پر شباب کیا ہو گا