اسلام آباد (جیوڈیسک) ایک پاکستانی یونیورسٹی طالبعلم کے قتل کے الزام میں گرفتار آٹھ افراد پر قتل اور دہشت گردی کے الزامات میں فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔ مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کو مشتعل ہجوم نے قتل کر دیا تھا۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق لبرل خیالات رکھنے والے طالب علم مشال خان کی مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد پولیس نے بارہ افراد کو گرفتار کیا تھا۔ ان میں سے آٹھ افراد کو مردان میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے سامنے پیش کر دیا گیا۔
پبلک پراسیکیوٹر رفیع اللہ خان نے اے ایف پی کو بتایا، ’’آٹھ افراد کو مردان میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا۔ ان پر قتل اور حکومت کی رٹ چیلنج کرنے کا الزام ہے۔‘‘ رفیع اللہ کے مطابق چار دیگر افراد کو آج ہفتہ پندرہ اپریل کو گرفتار کیا گیا جب کہ دیگر مجرموں کی تلاش جاری ہے۔
شعبہ ابلاغیات کے طالب علم مشال کے قتل کے دوران کئی افراد نے اس واقعے کی اپنے اپنے موبائل فون سے ویڈیو بنائی تھی۔ پولیس ایسی ہی ویڈیوز کے ذریعے قتل میں ملوث افراد کی شناخت کر رہی ہے۔ خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر اطلاعات مشتاق غنی کا کہنا تھا کہ حکومت نے پشاور ہائی کورٹ سے اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کرنے کی درخواست کی ہے۔
پاکستان میں توہین مذہب انتہائی حساس معاملہ سمجھا جاتا ہے اور قانون کے تحت ایسی توہین کے مرتکب افراد کو سزائے موت بھی دی جا سکتی ہے۔ تاہم اکثر اوقات ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جن میں متعلقہ مشتبہ فرد کو توہین مذہب کا کوئی باقاعدہ الزام لگا کر قانونی طور پر گرفتار کیے جانے سے پہلے ہی پرتشدد طریقے سے کوئی نہ کوئی مشتعل ہجوم قتل کر دیتا ہے۔ سن 1990 سے اب تک پینسٹھ افراد کو ایسے ہی الزامات لگا کر ماورائے عدالت انداز میں ہلاک کیا جا چکا ہے، ان میں سے کسی کو قتل کیا گیا تو کسی کو زندہ جلا دیا گیا۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیم ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان نے مطالبہ کیا ہے کہ مشال کے قتل میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
جمعے کے روز مشال کی تدفین کے موقع پر اس کے والد کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ ان کے بیٹے کے قتل کے بعد ملک میں ممکنہ طور پر کسی بھی دوسرے بے گناہ شہری کے اس طرح قتل کیے جانے کے خلاف بھرپور عوامی شعور بیدار ہو گا۔