تحریر : روہیل اکبر دنیا اس وقت ترقی کی نئی منزلیں طے کر رہی ہے بلٹ ٹرین اب ماضی کا قصہ بن چکی ہے نئی ٹیکنالوجی کی بدولت اب اڑنے والی کاریں اور شمسی توانائی سے چلنے والے جہاز آ چکے ہیں مگر ہم آج بھی وہاں کھڑے ہیں جہاں سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا 2008 کی خانہ شماری کے مطابق اس وقت پاکستان کی کل آبادی 17 کروڑ 28 لاکھ 48 افراد پر مشتمل تھی جن میں سے 14سال کی عمر تک کے بچے 3 کروڑ 36 لاکھ 17 ہزار 953 تھے جو ٹوٹل آبادی کا 37.8فیصد بنتا ہے جبکہ اسی عمر کی بچیاں 3 کروڑ 17 لاکھ 41 ہزار 258 تھی یہ بچے اور بچیاں ملا کر کل آبادی کا 37.8فیصد تھااسی طرح 15سے 64سال کے درمیان عمر کے مرد 5 کروڑ 12 لاکھ 92 ہزار 535اور خواتین 4کروڑ92لاکھ ،ایک سو 23 تھیں اور65سال سے زائد عمر کے افراد جن میں مردوں کی تعداد 34 لاکھ 8ہزار 749جبکہ بزرگ خواتین38لاکھ 18ہزار 533تھی قیام پاکستان سے لیکر 2008تک بھی وہی صورتحال تھی جو آج ہے 7سال بعد ہماری یہ آبادی تقریبا 20کروڑ سے تجاوز کرچکی ہو گی مگر ہم رہتے آج بھی باقی دنیا سے 100سال پیچھے ہیں کیونکہ ہمارے پاس نہ تو صحت کی بنیادی سہولیات ہیں اور نہ ہی ہم اپنے بچوں کو اپنی اور انکی امیدوں کے مطابق پڑھا پاتے ہیں۔
یہاں پرتو بخار کی گولی لینے کے لیے سرکاری ہسپتالوں میں گھنٹوں خوار ہونا پڑتا ہے اور جن کے مختلف نوعیت کے ٹیسٹ کرنے ہوتے ہیں انہیں تو تاریخ بھی کئی ماہ بعد کی دے دی جاتی ہے اتنی دیر میں تو شائد مریض قبرستان پہنچ جائے اور ایسے بھی مریض ہوتے ہیں جن کو فوری طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے مگر انہیں ہمارے دل والے ہسپتال بھی کئی کئی ماہ کی تاریخ دیتے ہیں اسی طرح ہمارے سرکاری تعلیمی اداروں کا حال ہے جہاں تعلیم کا تو شائد نام ونشان بھی نہ ہو مگر داخلوں کے لیے میرٹ ضرور ہے جو اپنے والدین کی جائیدادیں بیچ کر تعلیم حاصل کرچکے ہیں انکے لیے کام کا کوئی موقعہ نہیں ہے جو اعلی عہدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں وہ عوام کی بے بسی کا تماشا دیکھ رہے ہیں جبکہ مہنگائی، بے روزگاری اور بد امنی نے موجودہ دور کے نوجوان کو ذہنی طور پر منتشر کر دیا ہے جس وجہ سے وہ ملک و قوم کی فلاح و بہبود میں اپنا کردار موثر انداز میں ادا نہیں کر رہے۔ اقتدار کے پچاریوں کے درمیان پاکستانی قوم پس کر رہ گئی ہے،ایک طرف بے روزگاری، مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کا بحران جو 24 گھنٹے ،ہفتے کے سات دن ،پورا مہینہ بلکہ پورا سال عوام کو تباہ وبرباد کئے جارہا ہے۔
سہانے دنوں کی امیداور حکمرانوں کی ہٹ دھرمی عوام کے خوابوں کو مسلسل چکنا چور کئے جارہے ہیں۔بھولی بھالی عوام ایک بحران سے جان چھڑانے کیلئے دوسرے بحرانوں کے سہانے خوابوں کی بھینٹ چڑھ رہی ہے مفادات کی سیاست اور لوٹ مارنے پاکستان کو تباہ بربادکرکے رکھ دیا ہر اقتدار کا پجاری سہانے خواب دکھا کر تبدیلی کا نعرہ دے کر اقتدار کے مزے لوٹتا ہے ملک کو بحرانوں کا شکار کرکے چلا جاتاہے پاکستان کی 67%آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور اتنی بڑی تعداد میں کسی قوم کا نوجوانوں پر مشتمل ہونے کے باوجود ترقی یافتہ قوموں میں شمار نہ ہونا کسی طرح بھی المیے سے کم نہیں۔حکومت کی توجہ صرف کرپشن اور دولت سمیٹنے اور اپنوں کو نوازنے کی طرف ہے اور دوسری طرف ملک کے ذہین نوجوان مایوسی کے بعد یورپ اور امریکہ کا رخ کر رہے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ یورپی اقوام کی ترقی میں پاکستانی نوجوان کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔
پاکستان کے پالیسی ساز ادارے قوم کی ذہنی تربیت کی طرف توجہ نہیں دے رہے بلکہ ہمارے اداروں میں اکثر ایسے افراد براجمان ہیں جو حکمرانوں کی خوش آمد کرکے آئے اور پھر انہی کے احکامات پر آئین اورقانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے پاکستان کی نوجون نسل کو تباہی اور بربادی کی طرف دھکیل رہے ہیں ہماری سیاسی پارٹیاں الیکشن سے قبل پیسے والوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوجاتی ہیں سرمایہ دار اور انکے حواری ٹکٹ حاصل کرکے اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں جہاں وہ اپنے اپنے مفادات کی بات کرتے ہیں رہ گئے ورکر وہ ساری عمر ورکری میں ہی گذار دیتے ہیں جن غریب خاندان کے بچوں کے اندر لیڈر بننے کے جراثیم موجود ہوتے ہیں انہیں یہی لوگ کمال مہارت سے غلط سرگرمیوں میں ملوث کروادیتے ہیں اور پھر وہ لیڈری کا شوقین اپنی جان بچانے کے چکر میں باقی کی عمر گذار دیتا ہے سپریم کورٹ کے حکم سے ملک میں مردم شماری شروع ہوئی توسیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والا نوجوان طبقہ بہت زیادہ خوش فہمی میں مبتلا ہوگیا کہ اب اس مردم شماری کے نتیجہ میں ملک میں انتخابی حلقوں کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوجائیگا اور شائد نئی حلقہ بندیوں میں انہیں بھی الیکشن میں حصہ لینے کا موقعہ مل جائے مگر ہمارے ہاں تو ایک ٹھیلے والا دوسرے کو برداشت نہیں کرتا تو ایک ایم پی اے اور ایم این اے اپنے حلقے میں کسی اور کو اپنے برابر کیسے برداشت کرسکتا ہے کیونکہ ہمارے ایم پی اے اور ایم این اے حضرات نے اپنے حلقوں کو بھی اپنی ریاست بنا رکھا ہے جہاں انکی مرضی کے بغیرسرکاری محکموں میں بھرتی نہیں ہو سکتی۔
تھانوں میں تعیناتیاں نہیں ہوسکتی ،اور تو اور اکثر حلقوں میں چوریاں اور ڈکیتیاں بھی ان افراد کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتی جبکہ سب سے اہم وہ پروٹوکول ہے جسکی خاطر ایک دوسرے کی جان بھی لے جاتے ہیں تو ایسے افراد کیسے اپنی جاگیر کو تقسیم کرسکتے ہیں اگر ہم نے ان جاگیرداروں ،وڈیروں اور قبضہ گروپوں سے جان چھڑوانی ہے تو پھر ہمیں ایسے افراد کو منتخب کرکے آگے لانا پڑے گا جن کے اندر انسانیت زندہ ہو اور جن کو ہم بوقت ضرورت پکڑ بھی سکیں اور اپنی بات سنا بھی سکیں۔
ہمارے دکھ درد کا سانجھا ہو اور خوشیوں کا ساتھی ہو غریب عوام کا ہمدرد ہو اور سرکاری وسائل کو اپنے خاندان پر خرچ نہ کرے اور بھرتیوں میں اپنے ووٹروں کو مستحق افراد پر ترجیح نہ دے تب ہی ہم اپنے ملک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرسکتے ہیں ورنہ ہمارے یہ سیاستدان مزید عزیر بلوچ بناتے رہیں گے جو انسانوں کو مکھی اور مچھر سے بھی زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہیں کیونکہ انکے پیچھے اقتدار کے پجاریوں کا ہاتھ ہوتا ہے جو اپنی حکمرانی کو قائم رکھنے کے لیے میثاق جمہوریت کا سہارا لیتے ہیں تو کبھی غریب عوام کے دکھوں پر مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں ملک کی تقدیر سے کھیلنے والوں نے اپنے اوپر شرافت کا جو لبادہ اوڑھ رکھا ہے اب آہستہ آہستہ وہ ہٹتاجارہا ہے اور نیچے سے انکے اصلی چہرے برامد ہونا شروع ہوچکے ہیں اب وہ وقت دور نہیں کہ قبضہ گروپ اور ملکی دولت لوٹنے والے بھی ہماری سب سے بڑی منظم اور طاقتور فورس کے قابو میں ہونگے مگر اس کے لیے عوام کو بھی سمجھ داری کا مظاہرہ کرنا پڑے گا ہم نے اب اپنی بقا کی جنگ لڑنی ہے کسی ڈاکو کے حق میں نعرے لگانے سڑکوں پر نہیں چلے آئیں گے بلکہ ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے جس نے ہمارے ماضی سے کھیلا اور اب مستقبل کو تاریکی میں ڈبو رہا ہے اب یہی وقت ہمارے مستقبل کی راہیں بھی متعین کریگا۔