تحریر : حاجی زاہد حسین خان آزاد کشمیر پلندری کے نواحی گائوں بھتیاہ شریف میں دربار عالیہ حاجی عبدالحمید پر آج کل میلے کا سا سماں ہے۔ خصوصا چاند کی نو، دس اور گیارہ تاریخ اور چاند ہی کی 27,28,29آخری تاریخ میں لوگ جوق در جوق اس طرف رواں دواں ہیں۔ بچے بھی ہیں بوڑھے بھی اور خواتین بھی ان تاریخوں میں وہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی گاڑیوں کا ایک الگ کارواں بھی ہمہ وقت آجا رہا ہوتا ہے۔
دربار کے نوجوان خلیفہ صاحبزادہ پیر طریقت ذیشان حمید ہر گھڑی ہر پل آنے والوں کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں ہر مرض کے مریض خواتین اور حضرات شوگر ہے یا ہیپا ٹائٹس امراض قلب میں یا جوڑوں کے درد آنکھوں کے امراض میں یا جلدی امراض روحانی امراض میںیا جسمانی امراض عوام الناس کو پھونکیں اورپانی دم کر کے دیتے جا رہے ہیں۔ ساتھ ہی جدھردیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے۔ ھو اللہ ھو ۔ لا الہ الاللہ محمد الرسول اللہ اور رضائے الہی کا ورد اور ذکر کی تلقین فرما رہے ہیں۔ وہاں دم کیا ہوا پانی پلا رہے ہیں۔ اور گھروں سے لائی ہوئی پانی کی بوتلیں دم کر کے دے رہے ہیں۔ ایک ایک زائر سے عارضوں کا پوچھنا دم کرنا اور انشاء اللہ ٹھیک ہو گئے ہو ۔ کہہ کر رخصت کر رہے ہیں۔ زیادہ رش کی صورت میں پانچ دس دس زائریں کو اجتماعی دم فرما رہے ہیں۔
آنے والے زائرین کو تین بار آنے کا حکم دے کر رخصت کر رہے ہیں۔لوگوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ انہیں تین بار آنے میں شفاء مل رہی ہے۔ شوگر بلڈ پریشر کا کنٹرول بھی مل رہا ہے لوگوں کا کہنا تھا یہاں کئی اندھوں اور گونگوں کو بھی آنکھوں کی بینائی اور زبان کی گویائی اللہ کے حکم سے ملی ہے۔ جوڑوں اور کمر درد کا آفاقہ اور سننے دیکھنے میں آیا ہے۔ نوجوان خلیفہ بڑے دلکش شخصیت کے مالک اور بااخلاق اور مودبانہ انداز سے پیش آتے ہیں پردے کا بھی معقول انتظام ہے۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ زائرین سے کوئی روپے پیسے کی ڈیمانڈ یا فرمائش نہیں کی جاتی ۔ لنگر کے لئے یا دربار کی تعمیر کے لئے خوشی سے جو سو پچاس مرضی سے دے نہ دے ۔ کوئی پابند ی نہیں۔ دربار میں مدفون خلیفہ ذیشان حمید کے والد گرامی حضرت حاجی پیر طریقت عبدالحمید روائیت کے مطابق 1982میں فوج کی ملازمت سے ریٹائرڈ ہوئے پیشے کے لحاظ سے وہ دندا ن ساز تھے۔
پنشن آنے کے بعد انہوں نے اپنے پیشے کے مطابق راولپنڈی میں ہی دندان سازی کا کام شروع کیا۔ اور ساتھ ہی دندان سازی کے سازو سامان کی امپورٹ ایکسپورٹ کا کام شروع کیا کاروبار چل نکلا دولت کی ریل پیل ہو گئی ۔ اسی دوران وہ اپنی فیملی اور والدہ ماجدہ کے ساتھ حج کے فریضہ کے لئے گئے طواف کے دوران کسی سوالی نے سوال کیا اپنے ملک جانے کے لئے ٹکٹ کے لئے روپے پیسے نہیں ۔ میری مدد کریں۔ حاجی صاحب نے جیب میں جتنی رقم موجود تھی اسے دے دی۔ پاکستان واپسی کے لئے کسی جاننے والے نے خرچہ دیا بس اس دن سے وہ اللہ کے نیک بندوں کے ساتھ بیٹھنے اٹھنے لگے ۔ کاروبار بغیر توجہ کے ختم ہوتا گیا۔ جمع پونجی بقول ان کے صاحبزادے جو ساٹھ لاکھ کے قریب تھی جو آیا فیاضی سے دیتے لیتے رہے۔
ختم ہو گئی غریبوں کی مدد کو شعار بنا لیا ۔ اولاد کی کثرت تھی صرف ایک مکان بچا۔ لوگ ان کی سادگی مدد دم درود سے مستفید ہوتے رہے۔ اسی خدمت انسانی کے دوران بیمار ہوئے ہسپتال میں آخری وقت اپنے سات بیٹوں میں سے تیسرے نمبر والے بیٹے صاحبزادہ ذیشان کو بلایا چنا جس نے انکی خدمت کی اور ساتھ ان سے علمی روحانی تعلیم بھی حاصل کرتے رہے خلافت عطا کی اجازت دے دی اور خدمت انسانی کی وصیت اور اپنے چھوٹے بھائیوں کی پرورش کی بھی وصیت فرمائی ۔ اور اپنے آبائی گائوں بھتیاہ شریف میں مدفون ہوئے۔ اس طرح تب سے نوجوان خلیفہ حضرت ذیشان حمید مہینہ کے چھ دن یہاں دربار عالیہ حاجی عبدالحمید پر اور باقی ایام راولپنڈی محلہ شاہ خالد کلمہ چوک میں اپنے گھر پر عوام الناس کی بے لوث خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔
ساتھ انکے بھائی بھی اپنی اپنی ڈیوٹیاں دے رہے ہیں۔ اللہ انہیں اجر عظیم دے اور انکے پاس آنے والے مریضان اور زائرین کو روحانی ، جسمانی بیماریاں سب کو شفا ء کاملہ عاجلہ عطا فرمائے اور حضرت قبلہ حاجی عبدالحمید کے درجات بلند کرے ۔ ان کا یہ سلسلہ رضائے الہی حقیقت میں سب کے لئے رضاء ربانی کا باعث بنے آمین ان کے مریدوں میں آزاد کشمیر کی نامور شخصیات سیاستدان جن میں سابق وزیر اعظم سردار عتیق خان اور دوسرے کئی اہم عہدوں پر فائز آفیسران بھی وہاں حاضری کو سعادت سمجھتے ہیں۔ واللہ واعلم بالصواب
Haji Zahid Hussain Khan
تحریر : حاجی زاہد حسین خان ممبر کالمسٹ فیڈریشن آف پاکستان hajizahid.palandri@gmail.com