اسلام آباد (جیوڈیسک) قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر، صدیوں یاد رکھے جانے والے فیصلے کی گھڑی آن پہنچی، پاناما کیس کا فیصلہ دوپہر دو بجے سنایا جائے گا، قوم کی نظریں سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک پر، اسحاق ڈار اور کیپٹن صفدر کے سیاسی مستقبل کا تعین بھی متوقع ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی 4 ماہ 3 دن میں 36 بار سماعت ہوئی جبکہ مقدمہ 96 گھنٹے سنا گیا،3 مارچ 2016 کو پانامہ کا ہنگامہ شروع ہوا۔ اپوزیشن سیخ پا ہوئی اور وزیر اعظم سے استعفیٰ مانگ لیا،نواز شریف نے مطالبہ رد کر دیا اور عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کر دیا تاہم سپریم کورٹ نے معذرت کر لی،تحقیقاتی کمیشن کے ضوابط کی تشکیل کیلئے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کی طویل نشستیں بھی ہوئیں لیکن بے سود رہیں،پھر تحریک انصاف سڑکوں پر آئی،دو نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کی کال دی گئی تو پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی،اسی دوران، یکم نومبر کو سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے کمیشن بنانے پر اتفاق کیا۔
3 نومبر 2016 کو باقاعدہ سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کمیشن کا کسی جماعت کے ضوابط پر متفق ہونا ضروری نہیں، وزیر اعظم کیخلاف الزامات کو دیکھنا ترجیح ہے، شواہد دیکھ کر کمیشن بنانے یا نہ بنانے کا فیصلہ ہو گا،15 نومبر کو سماعت میں نیا موڑ آیا،وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل نے شریف خاندان کی قطر میں سرمایہ کاری سے متعلق قطری شہزادے کا خط عدالت میں پیش کر دیا،وزیر اعظم کے خاندان کی جانب سے قطری خط آیا تو پی ٹی آئی سینکڑوں دستاویزات لے آئی،18 نومبر کو عمران خان کے وکیل حامد خان کیس سے الگ ہوئے،30 نومبر کو پہلی بار نعیم بخاری نے پی ٹی آئی کی جانب سے دلائل دیئے،5 دسمبر کو حسین نواز کے وکیل نے لندن فلیٹس کی رجسٹریاں جمع کرائیں جس کے چار روز بعد چیف جسٹس ریٹائر ہوئے تو بینچ ٹوٹ گیا۔
31دسمبر 2016 کو نئے چیف جسٹس نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں نیا بینچ بنایا،پھر نیا سال آیا لیکن پرانا کیس چلتا رہا،3 جنوری کو وزیر اعظم، مریم نواز، حسن نواز اور حسین نواز نے وکیل بدل لئے،4 جنوری 2017 سے روزانہ کی بنیاد پر سماعت شروع ہوئی،26 جنوری کو حسین نواز نے ایک اور قطری خط اور جدہ فیکٹری کا ریکارڈ پیش کر دیا،یکم فروری کو جسٹس شیخ عظمت سعید کو دل کی تکلیف ہوئی تو سماعت ملتوی ہو گئی۔ 9 فروری کو فاضل جج کی صحتیابی کے بعد پانچ رکنی بینچ دوبارہ مکمل ہوا،یوں 15 فروری سے سماعت کا سلسلہ پھر چل پڑا۔
دوران سماعت حدیبیہ پیپر ملز مقدمے کا ذکر بھی آیا،21 فروری کو نیب کے سربراہ نے ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل دائر نہ کرنے کا بیان دیا، جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس گلزار احمد اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کے بعد پانامہ کیس کا فیصلہ 23 فروری کو محفوظ کیا تھا۔