تحریر : مرزار ضوان پیارے دوست محمد رضوان بٹ بھی کبھی کبھی کمال ہی کردیا کرتا ہے، برادرم عرفان عزیز اور زاہد بھٹی کے ہمراہ بیٹھے اکثر سیاسی گفتگو اور نئے دائو پیچ سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری صرف محمد رضوان بٹ صاحب نے اپنے ذمے لے رکھی ہے ،کونسا ایم پی اے اپنے حلقے میں کیا ترقیاتی کام کروا رہاہے اور کونسا ایم این اے عوام کیلئے کیا خدمات دے رہاہے ایسی تمام تر انفارمیشن ہمیں بٹ صاحب ہی فراہم کرتے آرہے ہیں ، کو نسی سیاسی پارٹی کیا کردار ادا کررہی ہے اور کون کہاں کیسی مصروفیت میں ہے ، بٹ صاحب کے پاس سیاسی ”مخبریوں ”بہت بڑا ذخیرہ ہر وقت موجود رہتا ہے ۔جبکہ بٹ صاحب خود بھی علاقائی ”صدارت”کے نوٹیفکیشن کی ہر وقت راہ تکتے رہتے ہیں۔
فی الحال بٹ صاحب کے پاس بھی بہت اعلیٰ قسم کا ”لولی پوپ”ہے جو بٹ صاحب کے حوصلے کو پست نہیں ہونے دیتا ، پارٹی کیلئے ہمہ وقت تیار اور جانثاروں میں اپنی مثال آپ یہ بٹ صاحب کوہی زیب دیتا ہے ، خیر ”صدارت”کی منظور ی کیلئے نام چلے جانے کے باوجود ”اڈیک”کا دامن ہاتھ نہیں چھوڑا، چاند رات کو بھی یہی سلسلہ چل رہا تھا کہ ایک دوست نے کہاکہ صبح فیصلہ کنفرم ہے تو یا ر ہمارے بٹ صاحب کی صدارت کا کیا بنے گا۔۔۔؟ بٹ صاحب کہنے لگے کہ بھائی بڑی صدارت برقرار رہے اسی میں ہماری صدارت بھی کنفرم ہوجائے گی، پانامہ کا تاریخ ساز فیصلہ جس کے متعلق کہاجاتارہاکہ ایسے فیصلہ آئے گا کہ قوم یاد رکھے گی ، بلاشبہ پوری قوم 56دنوں سے اس اہم ترین اور ”محفوظ ترین”فیصلے کا انتظار کرتی رہی ، انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور آخر کار پوری قوم کو تاریخی فیصلہ سننے کو مل ہی گیا ، یقینا ایسا فیصلہ کہ جس پر پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان اپنی اپنی پارٹی سے محبت کو مزید پروان چڑھانے کیلئے ”مٹھائیاں ”تقسیم کرتے رہے۔
دونوں پارٹیاں ہی بہت خوش تھیں، لیکن وہی ہوا کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف جیت گئے ، قابل احترام سپریم کورٹ کا فیصلہ ان کے ہی حق میں آیا لیکن دو کے مقابلے میں تین کی اکثریت سے۔۔۔ فیصلے کے مطابق جے آئی ٹی کی تشکیل اور وزیراعظم میاں محمد نواز شریف صاحب کی اپنے بیٹوں حسن اور حسین کے ساتھ ان کے سامنے حاضری ، یہ سارے معاملات فیصلے میں سنا دیئے گئے ، دوپہر دو بجے سے رات تک تو تحریک انصاف والوں کی طرف بھی جشن کا سماں تھاکہ اچانک رات گئے تمام تر فیصلے کے مندرجات کا بغور مطالعہ کرنے کے بعدتحریک انصاف کی طرف سے وزیراعظم سے ”استعفے”کا مطالبہ بھی سامنے آگیا اور یہ بھی وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے ۔۔۔جبکہ فیصلے میں وزیراعظم کو نااہل قرار نہیں دیا گیا اور وہ بدستور کام کرتے رہیں گے ، مزید تحقیقات کی جائیں گی ، اب اس پر کو ن پھنسا اور کون بچا ، شاید تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ ن والوں کو جلد بازی میں سمجھ ہی نہ آئی ، عین ایسا ہی تھاکہ جیسے لڑکی پسند بھی آگئی اور رشہ طے کرنے کیلئے ”ہاں ”بھی نہیں کی ، پھر دونوں فیملیز اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے ۔۔۔لیکن گھروں میں جاکر ”مٹھائیاں ”تقسیم کرنے کا معاملہ سمجھ سے بالا تر ہے ،اسی تاریخی فیصلے پر دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی گلے شکوے خاصے کئے گئے اور ابھی تک کئے جارہے ہیں ، ان گلے شکوئوں صرف ایک ہی مقصد ہے کہ ”میاں صاحب”نامنظور ، اب جے آئی ٹی اپنی تحقیقات کا آغاز کریگی اس میں پھر مزید معاملات کھل کر سامنے آئیں گے۔
اس ”محفوظ ترین ”فیصلے پر ایک عجیب سی صورتحال ابھر کر سامنے آئی ہے نئی سے نئی باتیں اور ”شوشے”اب بھی عوام کو اپنی طرف آواز دے رہے ہیں کبھی کسی جماعت کا لیڈر کسی کو ”چور”کہہ رہے تو کبھی کوئی خو د کو صادق وامین ہونے کے دعوے کررہاہے ساتھ ساتھ میں اگلے الیکشن بھی تیاریاں عروج پر ہیں اور بجلی کا بحران بھی ، ہر پارٹی اپنی سیاسی مہم کو بہرصورت کامیاب کرنے کیلئے دوسری پارٹی کی کمزوریوں کو ہواد ینے کے چکر میں ہے جو کل تک ایک پلیٹ میں کھاتے نظر آئے تھے آج الگ الگ ”سیاسی میدان”سجا کر ملک کے اگلے وزیراعظم اور وزیر بننے کے خواب دیکھ رہے ہیںان میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو حقیقی معنوں ”صادق و امین”کے عظیم المرتبت لقب سے سرفراز ہوتا ہو، جس کا جہاں سے دائو لگتا ہے معافی نہیں دیتا ، وہ ایک الگ بات ہے کہ جس کا دائو نہیں لگ رہا وہ حب الوطنی کے راگ الاپ رہاہے جبکہ سب کی نظریں وزات اعظمی کی ”کرسی”پر لگی ہوئی ہیں اور عوامی خدمت کے دعوے کیے جارہے ہیں اور ہمیشہ سے کئے جاتے رہے ہیں ، ایک اپنادور حکومت پورا کررہاہوتا ہے تو دوسرا اسکی ٹانگیں کھینچتا ہے کہ یہ قومی خزانہ لوٹ رہاہے اور عوامی کی حقیقی خدمت نہیں کررہاہے میں اس سے اچھی ملک وقوم کی خدمت کرسکتا ہوں شاید مجھ سے بڑھ کر ”محب وطن”کوئی ہو ہی نہیں سکتا ۔۔۔کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے ہمیشہ ہی نواز شریف کے حق میں فیصلہ دیا ہے نجانے کیوں ۔۔۔؟رہی بات مورخ کی تو اب عوام خود ہی فیصلے کرے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر مورخ کیا لکھے گا ۔۔۔؟ ساتھ ساتھ مورخ کو یہ بھی لکھنا ہو گا کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں میں کتنے فیصد لوگ ظاہری و باطنی طور پر ”محب وطن ”ہیںاور مورخ یہ تو لازمی لکھے گا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر مٹھائیاں تقسیم کرکے اگلے دن قومی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی اور استعفے کا مطالبہ بھی عوامی خدمت کے پیش نظر کیا گیا۔
مورخ یہ بھی لکھے گا کہ جب تک ہماری قوم ہجوم سے قوم نہیں بنے گی اور جب تک ہماری قوم بیدار نہیں ہوگی یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے ، ہم اپنا حق حاصل کرنے کیلئے دربدر کی ٹھوکریں یونہیں کھاتے رہیں گے، یقینا مورخ یہ بھی لکھے گاکہ تمام سیاسی جماعتیں ذاتی انٹریسٹ پر اکھٹی ہوتی رہیں لیکن ملکی سلامتی کیلئے کردار صرف اعلیٰ اداروں نے ہی ادا کیا ، پانامہ کیس کو لے کر کتنا وقت لگا اور پھر نتیجہ کیا نکلا یہ سب جمہوری تقاضوں کے عین مطابق تھا یانہیں مگر حقیقی فیصلہ تو عوام کا ہوتا ہے اور اب عوام کو بھی اپنا محفوط ترین فیصلہ سنانا ہو گا کہ پاکستان میں کب تک یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا ۔۔۔؟ کب تک عوام غربت ، مہنگائی ، بیروزگاری ، لاقانونیت کی چکی میں پستے رہیں گے۔۔۔؟ کب تک ان باری لگانے والوں کی باتوں میں آکر پھر انہیں اپنے سروں پر بیٹھاتے رہیں گے۔۔۔؟ہمارے آنیوالے مستقبل کے فیصلے کرنیوالے ایسے لوگ ہوں گے جو الیکشن دنوں میں تو نظر آتے ہیں بعد میں کبھی نظر ہی نہیں آئے اور کیا مثبت فیصلے کئے ہیں ان محب وطن لیڈروں نے اب تک ہمارے لئے ۔۔۔؟بجلی ، گیس ، پانی کے بلوں کی بروقت ادائیگی کے باوجود ، تمام تر ٹیکس ادا کرنے کے باوجود کیا ہے۔
آج ہمارے ہاتھ میں ۔۔۔عوام کو سوچنا ہو گا اور جاگنا ہوگا اپنے اور اپنی آنیوالی نسلوں کے روشن مستقبل کیلئے اگر ایسا ممکن نہ ہوا تو پھر جیسا چل رہاہے ویسا ہی چلتا رہے گا ، جہاں شرجیل میمن ، ایا ن اور ڈاکٹر عاصم جیسے گرفت میں نہ آسکے وہاں کون کسی کو پکڑے گا اور پھر پکڑ کر بھی کیا کرلے گا ، ہمیں اپنی آنکھیں کھول کر خود فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہمیں کس طرح کے حکمران چاہیں ، کون ہمارے مستقبل کو تاریکی سے روشنی کی طرف لے جاسکتا ہے ۔۔۔مزید اب رضوان بٹ صاحب سے بھی درخواست ہے کہ دیکھ لیں کہ صدارت کے نوٹیفکیشن کے بعد وہ کیا گل کھلاتے ہیں اپنے حلقے کی ترقی کیلئے اور عوامی خدمت کے لئے کیونکہ یہاں تو سب کا سب ”گول مال”ہے ۔۔۔اللہ رب العزت میرے وطن عزیز کو دشمنوں کے شر سے ہمیشہ محفوظ فرمائے۔ (آمین)