تعلیم پر پیف کا شب خون

Education

Education

تحریر : ایم آر ملک
ملک رب نواز کا تعلق جنوبی پنجاب کے گائوں بوہڑ والا سے ہے ۔معاشی اور تعلیمی پسماندگی جیسی قباحتیں ازل سے ملک رب نواز کے گائوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ ملک ربنواز نے لڑکپن سے شعور کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا توسب سے پہلی جس چیز نے اُس کے احساس پر چرکہ لگایا وہ گائوں کی بیٹیوں کی تعلیم سے محرومی تھی گائوں کی کوئی بیٹی اگر طویل فاصلہ طے کرکے کسی تعلیمی ادارہ کا رخ کرتی بھی تو جون کی چلچلاتی دھوپ اور دسمبر کی کہر آلود سردی کا تصور رب نواز کی برداشت میں دراڑ ڈال دیتا۔

ایک روز رب نواز نے چوپال پر گائوں کے سارے بزرگوں اور اپنے ہم عصروں کا اکٹھ کیا اور مستقبل کی نسل کا یہ مسئلہ اُن کے سامنے رکھا۔ ربنواز کا مدعا تھا کہ گائوں کا کوئی بزرگ تعلیم کے اس اہم مسئلے کے حل کیلئے ہراول کا کردار ادا کرے سارا گائوں اُس کے پیچھے چلے گا ۔گائوں کے سارے بزرگوں نے جب ملک ربنواز کے جذبات کو اس نہج پر دیکھا تو اُنہیں رب نواز کی شکل میں ہی جانفشاں ہراول نظر آیا ۔چوپال پر بر اجمان سارے گائوں والوں نے بیک زبان ہو کر کہا صدیوں سے پیاسے اس گائوں میں علم کی پیاس بجھانے کیلئے ایک تعلیمی ادارے کے حصول اور تکمیل کے مراحل تک ہم ملک رب نواز کے شانہ بشانہ ہوں گے ۔رب نواز اس کار خیر کیلئے نکلا تو اُس نے اس نیک مقصد کیلئے دن رات ایک کردیا اُس نے ہر اُس صاحب اقتدار کا دروازہ کھٹکھٹایا بوہڑ والا میں ایک سرکاری تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھنے میں جو معاون کا کردار ادا کر سکتا تھا ۔رب نواز کے رستے میں کئی مزاحمتیں آئیں ،سپیڈ بریکروں نے رخنے ڈالے مگر رب نواز متعین منزل کی جانب بڑھتا چلا گیا۔

ایک روز ایسا آیا جب رب نواز نے منزل پالی ۔اب سکول کی تعمیر کیلئے اراضی کا مسئلہ آڑے آیا رب نوازیہاںبھی جیت گیا اس نے بر لب سڑک اپنی قیمتی کمرشل اراضی تعلیمی ادارہ کے نام کردی ۔تعلیمی ادارے کی عمارت فنکشنل ہوئی تو داخلہ فارم دھڑا دھڑ بھرے جانے لگے ۔گائوں والوں کا تعاون اور تعلیمی مدارج میں مثالی کارکردگی نے ادارے کی اہمیت کو علاقہ بھر میں مثالی بنا دیا ۔گائوں کے بڑے جب رات گئے گائوں کی چوپال سجاتے تو اُن کا موضوع تعلیمی ادارہ کی ابتدا سے انتہا تک داستان ہوتی ۔رب نواز کی کاوشوں اور مستقل مزاجی پر لفظوں کے پھول برسائے جاتے ۔گائوں کی بیٹیوں کی تعلیم کے اس تسلسل کو پانچ برس ہوئے جب مارچ 2016میں ادارے پر پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن نے شب خون مارا ۔ایک دولت کے رسیا فرد کو پیف کے تمام اصول و ضوابط بائی پاس کرکے یہ ادارہ الاٹ کردیا گیا گائوں کے لوگوں کیلئے یہ ایک سانحہ تھا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ٹیچرز کی جگہ میٹرک پاس اور کم تعلیم اساتذہ نے لے لی اس تعلیمی استحصال پرگائوں کے لوگوں نے اپنی بیٹیوں کو ادارہ سے نکال لیا۔

گائوں کے لوگوں کیلئے اس سے بڑا سانحہ کوئی نہ تھا ۔وہ اس بے ضابطگی کے ہاتھوں ہارے نہیں انہوں نے پیف کو وہ سارے ثبوت مہیا کئے جن کے تحت کسی بھی ادارہ کو پیف کی دسترس میں نہیں دیا جاسکتا ۔مگر جہاں رشوت اور سفارش کی دیواروں کی اونچائی نظروں سے اوجھل ہو جائے وہاں میرٹ کی آواز سنائی نہیں دیتی ۔بوہڑ والا کے لوگوں نے انصاف کیلئے اپنے ضلع کے ڈی سی او کے در ِ احساس پہ دستک دی تو درخواست محکمہ تعلیم کے ضلعی سربراہ کو مارک ہوئی ۔محکمہ تعلیم سے لیکر ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسر تک سب نے حقائق کا ادراک رکھتے ہوئے بوہڑ والا کے لوگوں کو انکوائریو ں کی دلدل میں چھ ماہ پھنسائے رکھا آخر کار یہ کیس فائلوں کی شکل میں سفر کرتا ہوا سیکریٹری تعلیم کے پاس پہنچ گیا ایک ایسا سیکریٹری تعلیم جو خود تعلیم کی تجارت میں پیش پیش ہے بوہڑ والا کے عوام تخت ِ لاہور کی شاہرات کی خاک 2016سے چھان رہے ہیں مگر انصاف کرپشن کے اہراموں میں گم ہوکر رہ گیا ہے۔

آپ ماضی کے اوراق اُٹھائیں قیام ِ پاکستان کے وقت 1951ء میں ہماری شرح خواندگی محض 16فیصد تھی تعلیم سب کیلئے کی نظریاتی اساس پر اساتذہ تشنگان ِ علم کی پیاس بجھاتے آج وطن عزیز کی آبادی 3کروڑ کے بجائے 19کروڑ سے تجاوز کر رہی ہے اور ہماری شرح خواندگی 58فیصد جس میں 67فیصد مرد اور 33فیصد خواتین خواندہ ہیں وطن عزیز کے 183727یعنی 71فیصد تعلیمی ادارے گورنمنٹ اور 74693یعنی 29فیصد پرائیویٹ سیکٹر میں کام کر رہے ہیںپنجاب کی حد تک اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے سربراہان کا مطمع نظر پیسے کا حصول بن کر رہ گیا ہے وہ صوبہ جہاں خادم اعلیٰ کی گڈ گورننس ہمارے کانوں میں اپنی دھنوں کا رس گھولتی ہے پرائیویٹ سیکٹر میں چلنے والے تعلیمی ادارے صنعتی ایمپائر کا درجہ پا چکے ہیں۔

تشویشناک صورت حال یہ ہے کہ پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن جیسا فلاحی ادارہ جس کی بنیادی ذمہ داریوں میں نصاب کی بھر پور تیاری ،اور سر پرستی میں چلنے والے اداروں میں لائبریریوں کے قیام ،ٹیچرز کی ٹریننگ و سپورٹ کا نظام ،غریب بچوں کی مفت تعلیم و مفت کتابوں کا اجرا ئ،کھانے کے مفت انتظام سے لیکر خواندگی کیلئے نئے پروگرامز ،آئی سی ٹی سنٹرز کا قیام شامل تھا سے نہ صرف یہ ادارہ مکمل طور پر لاتعلق ہے بلکہ تعلیم میں رواںمثالی سرکاری تعلیمی ادارے بھی حکومتی آشیر باد سے منظور ِ نظر اور خالص کاروباری افراد کی دسترس میں دیتا جا رہا ہے۔

پنجاب ایجو کیشن فائونڈیشن کے ساتھ الحاق شدہ اداروں میں منظور ِ نظر اور کاروباری غرض و غایت کے سربراہان نے محض دولت سمیٹنے کی غرض سے اداروں میں زیر تعلیم بچوں کو فائونڈیشن کی طرف سے لاکھوں روپے اعزازیہ ملنے کے باوجود بھاری فیسیں اور پک اینڈ ڈراپ کی مد میں کثیر دولت بٹورنے کا کام جاری و ساری رکھا ہوا ہے ان داروں میں تعلیم دینے والے اساتذہ کو تنخواہوں کی مد میں محض تین تا چار ہزار روپے ادائیگی کی جارہی ہے اور تنخواہ وصولی کیلئے ان اداروں میں اساتذہ کیلئے دو رجسٹر آپ کو ملیں گے ایک رجسٹر میں اپنی طرف سے دی جانے والی حقیقی ادائیگی جبکہ دوسرے رجسٹر میں دس ہزار سے اوپر تنخواہ ظاہر کی جاتی ہے جس پر اساتذہ کے دستخط لئے جاتے ہیں اور یہی رجسٹر مانیٹرنگ ٹیم کو دکھایا جاتا ہے معلم اور معلمات کی تعلیمی قابلیت اور تنخواہوں کی ادائیگی کے معاملے میں دروغ گوئی اور جھوٹ سے کام لینے پر اس کی دسترس میں چلنے والے تعلیمی اداروں کے سربراہان کا کوئی ثانی نہیںآپ فرسٹ فیزکا مطالعہ کریں پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کے حوالے کئے جانے والے اداروں میں زیر تعلیم طلبا کی تعداد 20تک تھی 20سے زیادہ تعدا د والے سرکاری سکولوں کو ادارہ پیف کے حوالے نہیں کیاجانا تھا مگرہو ا اس کے برعکس ایسے رواں سرکاری تعلیمی اداروں کو بھی کمائی کرنے والے افراد کے حوالے کر دیا گیا جن کی تعداد 100کے قریب تھی نیلسن منڈیلا نے کہا تھا ”جن معاشروں میں صحت اور تعلیم کے شعبے تجارت گاہوں کا روپ دھار لیں وہ معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں۔

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر : ایم آر ملک