تحریر : روشن خٹک پانامہ کیس کے فیصلہ کو ستاون دن دودھ، مکھن پِلانے، کھلانے کے بعد سپریم کورٹ نے آخر قوم کے سامنے پیش کر دیا اور ثابت کر دیا کہ واقعی سپریم کورٹ کا یہ ایک بہت بڑا فیصلہ تھا، بڑا اس لحاظ سے کہ ہم نے کبھی کسی عدالت کے فیصلہ سے دونوں فریقین کو خوشی سے ناچتے نہیں دیکھا۔مگر آفریں ہو ، ہمارے معزز جج صاحبان کی دانش و فہم پر، جنہوں نے دونوں فریقین کو مٹھائی تقسیم کرنے پر مجبور کر دیا۔
البتہ ہم جیسے نادانوں کو مایوسی سے ہم کنار کر دیا کیونکہ ہم تو فیصلے کے منتظر تھے اور اس بات کے منتظر تھے کہ وزیر اعظم نواز شریف کو کلین چِٹ دی جائے گی یا پھر اسے ناہل قرار دیا جائے گا۔ مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔کلین چِٹ مِلی نہ اہلیّت پر انگلی اٹھی۔البتہ اس قومِ نا پرساں کو مزید چند مہینوں کے لئے تبصرہ آرائی کا مو قع ضرور فراہم کر دیاگیا۔
جوں جوں دن گزرتے جارہے ہیں مٹھائیاں کھانے اور جشن منانے والوں پر یہ راز کھلتا جا رہا ہے کہ ان کے ساتھ تو ہاتھ ہو گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ زرداری صاحب جے ٹی آئی کو مسترد کرنے کا اعلان کر رہا ہے اور تحریکِ انصاف اس فیصلے سے پڑنے والی مار کی تکلیف کو سہلا رہا ہے ۔جبکہ نواز شریف بھی پانامہ فیصلے پر آئینی ماہرین سے تفصیلی بریفنگ لینے کے بعد کافی پریشان ہو چکے ہیں،ایک فاضل جج کے یہ ریمارکس پڑھ کر نواز شریف نے ماتھے کو ہاتھ لگا دیا کہ ” کہ ہر بڑی دولت کے پیچھے ایک جرم ہو تا ہے ”وزیراعظم کو پریشان دیکھ کر ایک بڑے وکیل نے فورا یہ مشورہ عنایت کیا کہ وہ اس کے خلاف نظر ثانی اپیل دائر کر دیں تاہم یہ تجویز قبولیت کی کی سند حاصل نہ کر سکی ۔ایک من چلے نے اپنے ساتھی کے کان میں بڑے رازدارانہ انداز میں کفِ افسوس ملتے ہو ئے کہا کہ ” ہم مسلم لیگیوں نے بڑی غلطی کی کہ یہ انتظار کئے بغیر کہ پیدا ہونے والا نو مولود لڑکا ہے یا لڑکی ؟ ہم نے مٹھایئاں بانٹنی شروع کر دی۔ اب خدا جانے، اس فیصلے کا انجام کیا ہو گا ؟دسری طرف عمران خان کو شیخ رشید نے کہا کہ فکر نہ کر خان ! اب تو ہمیں ترپ کا وہ پتا ہاتھ آیا ہے جسے ہم آئیندہ انتخابات تک بھر پور انداز میں استعمال کر سکتے ہیں اب ہم اس فیصلے کو اپنے احتجاجی سیاست کے لئے بطورِ مہمیز استعمال کریں گے۔یہ سن کر عمران خان مسکرائے یوں ان کی مایوسی ‘امید ‘ میں بدل گئی اور فوری طور پر 28اپریل کو اسلام آباد میں جلسے کا اعلان کر دیا۔
الغرض ،پانامہ کیس کے اس فیصلہ نے سیاسی سطح پر بڑی ہلچل مچائی ہے اور موسم کے ساتھ ساتھ سیاست کے درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور حکمران جماعت اس فیصلے سے تلخ و شیریں کلمات نکالنے میں مصروف ہیں۔ کیونکہ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس کی توقع نہ تھی،یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو حتمی نہیں ہے،یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس سے کو ئی بھی مطمئن نہیں مگر پھر بھی ہر کو ئی اس کو اپنی جیت قرار دے رہا ہے۔پاکستانی عوام کی بد نصیبی ہے کہ وہ خوا مخوا اس قسم کے معاملات میں الجھی رہتی ہے،ان کی توجہ کو بار بار اصل مسائل سے ہٹا کر دوسری طرف مڑ دیا جاتا ہے۔سیاسی پہلوان ٹی وی چینل پر ڈنڈ بیلتے رہتے ہیں ،یوں عوامی مسائل میڈیا کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ وطنِ عزیز میں کسی ایسے شخص کو سزا نہیں دی جا سکتی جو اہلِ زر ہے، جس کے پاس بے شمار دولت ہے۔قانون دولتمندوںکی گھر کی لو نڈی ہے۔ قانون مکڑی کا جالا ہے جس میں کمزور پھنس جاتا ہے اور طاقتور نکل جاتا ہے۔ ایک نہیں ،ہزاروں مثالیں ایسی مو جود ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ وطنِ عزیز میں قانون صرف اور صرف غریب کے لئے ہے، مالدار کے لئے کو ئی قانون نہیں ،کو ئی اصول نہیں، کو ئی اخلاقی جواز نہیں۔سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں کہ لوٹ مار کا دائرہ پاکستان میں اتنا بڑھ چکا ہے ،جس کے آگے بند باندھنا ہی مشکل نظر آتا ہے۔یہ بھی سب جانتے ہیں کہ پاکستان کو کس کس نے لوٹا ہے؟ مگر آج تک کسی کو سزا نہیں مِلی۔ اشرافیہ طبقہ آپس میں ملا ہوا ہے، جو جتنا بڑا چور ہوتا ہے، اتنا وہ زور زور سے ‘ چور چور ‘ کا شور مچاتا ہے۔
پانامہ کیس پر جتنا شور آج منایا جا رہا ہے ،یہ سب عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کر ایک ایسے لاحاصل مسئلہ کی طرف لے جانا مقصود ہے جس کا انجام زیرو ہے۔نواز شریف کو کچھ ہوگا نہ دیگر سیاسی جماعتوں کو کچھ حاصل ہو گا۔ یہ ملک ایسے ہی چلے گا جیسے پچھلے سّتر سال سے چل رہا ہے تا آنکہ وقتِ جلال سبحانہ، آجائے اور ایک ایسا مردِ مومن کا ظہور ہو جائے جو اس ملک کے لٹیروں کو اس طرح بہا کر لے جائے جس طرح سیلاب کا بڑا ریلا خس و خاشاک کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے ۔ورنہ پانامہ کیس جیسے ہزاروں کیس کیوں نہ سامنے آجائیں، سب کا انجام ایک جیسا ہو گا۔