پرندے کی فریاد

Mithu

Mithu

تحریر : مدیحہ ریاض
میں ایک پرندہ ہوں۔اور مٹھو میرا نام ہے۔میں اپنی اور اپنی پرندہ برادری کی ایک فریاد لے کر آیا ہوں۔میں اپنے مالک کے پاس اس وقت آیا جب میرے پر مکمل نہیں نکلے ہوئے تھے۔ابھی میں نومولود ہی تھا کہ میں اپنی ماں سے بچھڑ گیا۔میں نے جب آنکھ کھولی تو خود کو ایک دکان میں پایا۔اس دکان میں اور بھی بہت سارے پرندے تھے جو میری طرح وہاں قید تھے۔اس دکان کا مالک ایک بے حس شخص تھا جو ہم پرندوں کو بیچ کر اپنی روزی کماتا۔وہ ایک چرب زبان دکاندار تھا وہ ہم پرندوں کی ایسی خصوصیات اپنے گا ہکوں کو بتلاتا جو ہم میں کبھی تھی ہی نہیں۔ایک دن دکان میں ایک شخص آیا اور مجھے 15 ہزار کے عوض خرید کر لے گیا۔ یوں میں اپنے مالک کے گھر پہنچ گیا۔میرے نئے مالک نے میرے لئے اعلیٰ غذا کا انتظام کیا۔

میں جب چھوٹا تھا تو سریلیک مجھے کھلایا جاتا اور پھر جیسے ہی بڑا ہوا تو مجھے ہری مرچ کھلائی جاتی تاکہ میں روانگی سے باتین کر سکوں۔امرود،کھیرا،چُوری،اور باجرہ بھی میری غذا میں شامل تھے۔میرے مالک نے میرے لئے ایک خوبصورت گھر کا انتظام کیا ۔وہ گھر خوبصورت تو تھا مگر مجھے کسی قید خانے سے کم نہ لگتا۔میں ایک آزاد پرندہ ہوں مگرمجھ سے محبت کے دعویداروں نے مجھے قید کر لیا۔میں سارا دن انسانوں اور ٹی وی جیسی مشینون کو شور سنتا رہتا۔میں جو اپنے پرندے ساتھیوں کی آواز سننے کا شوقین اور عادی تھا۔اب سارا سارا دن انسانوں اور مشینوں کی آواز کی آواز کو برداشت کرنے کی کوشش کرتا رہتا۔میں تو اونچا ہنسنے ،بولنے،اور چہکنے کا عادی تھا اب مجھے اونچا بولنے اور چہکنے سے منع کر دیا جاتا کہ میں بہت شور کرتا ہوں۔میںجو درختوں کا باسی تھا اب مصنوعی آب و ہوا میں رہنا پڑ رہا ہے۔

میں انسانوں کی اس بستی میںقید کیا جاتا ہوں جہاں میں سو بھی نہیں سکتا کیونکہ یہاں آدھی آدھی رات تک بتیاں جل رہی ہوتی ہیں۔اور میں ان بتیوں کے بند ہونے کا انتظار کرتا۔میری انسانوں سے ایک گزارش ہے کہ خُدا کیلئے قدرت کو اپنی مٹھی میں قید کرنے کی کوشش مت کریں۔ ہم پرندوں کو آزاد چھوڑ دیا جائے تاکہ شائد ہماری نسلیں برباد ہونے سے بچ جائیں۔مجھ سے جب بچے آکر کھیلتے ہیں اور مجھے جب مٹھو مٹھو کہ کر بلاتے ہیں۔تومجھے بہت ہی اچھا لگتا ہے لیکن مجھے کبھی کبھی ان معصوموں کے ہاتھوں بھی درد سہنا پڑ جاتا ہے۔جب وہ پنجرے میں موجود ڈنڈی کھینچتے ہیں تو مجھے اکژ چوٹ لگ جاتی ہے۔

ہم پرندوں کو انسانوں کی بستی میں بہت خظرہ لاحق ہے۔کیونکہ انسان ہمارے گھروں یعنی درختوں کو کاٹ کر ہمیں بے گھر کر رہے ہیں ۔ہم پرندوں سے محبت کے دعوے دار ہمارے لیئے گھر نہیں بناتے یعنی درخت نہیں لگاتے۔اور جب ہم ہجرت کر کے دوسری جگہ چلے جاتے ہیں تو پھر کہتے ہیں کہ فلاں پرندہ تو اب ناپید ہی ہو رہا ہے۔میری ان اشرف المخلوقات سے گزارش ہے کہ ہم پرندوں کو قید میں نہ رکھیں ۔اور نہ ہی ہمارا بلا وجعہ شکار کریں۔

ایک بات اور کہ ہم پرندہ برادری میں ان پرندوں کا شکار کریں جو الّٰلہ پاک نے حلال قرار دیئے ہیں۔اگر کبھی یہ لگے کہ حلال پرندے پہلے سے کم رہ گئے ہیں تو خدارا کچھ عرصہ کیلئے شکار کرنا چھوڑ دیجئے اور میری آپ سے ایک اور بھی درخواست ہے کہ اپنے بچوں کو بھی منع کریں کہ جب ہم درختوں پر بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں تو ہمیں غلیل کے ساتھ مارنے سے گریذ کریں۔کیونکہ ہم بھی جاندار ہیں اور الّٰلہ پاک کی مخلوق ہیں۔

Madeeha Riaz

Madeeha Riaz

تحریر : مدیحہ ریاض