تحریر : شہزاد حسین بھٹی ہر سال 23 اپریل کو دنیا بھر میں کتاب کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ہمارے ہاں کتاب پڑھنے کی عادت دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے جو انتہائی تشویشناک امر ہے۔ نسل نو کمرشل ازم کی طرف جا رہی ہے اور رجحان کتاب پڑھنے سے زیادہ تعلیمی ڈگری حاصل کرنے کی طرف ہے تاکہ نوکری مل جائے۔ کتاب پڑھنے سے ذہن’روح’ اور شخصیت کی نشونما اور تسکین ہوتی ہے جبکہ دولت سے مادی تسکین اور ظاہری عزت مل جاتی ہے۔ ماضی میں استاد شاگردوں کی تربیت کرتے تھے جبکہ آج کل کے اساتذہ دولت کی دوڑ میں سرگرداں ہیں جس کی وجہ سے نسل نو میں کتاب پڑھنے کا رحجان دم توڑ رہا ہے۔ آج کے دور میں کتاب اچھی بھی ہوتو پڑھنے والے قلیل تعداد میں ہیں۔مطالعے کا شوق نہ صرف آپ کے دماغ کو الزائمر امراض سے تحفظ دیتا ہے بلکہ ذہنی تنائو کو بھی ختم کردیتا ہے اور مثبت سوچ کی حوصلہ افزائی سمیت لوگوں سے دوستی کو مضبوط کرتا ہے۔
بیس کروڑ کے ملک میں چند سو کتب کا نہ بکنا ایک المیہ ہے۔ کتاب سے دوستی انسان کو بہت کچھ سکھاتی ہے۔ کتاب سے دوری اختیار کرنے سے نوجوان نسل بھٹک رہی ہے۔ آج کل لوگ کتاب خریدنے سے گریز کرتے ہیں اور صحت کیلئے نقصان دہ کھانے’پر ہزاروں روپے ضائع کرنے میں خوشی اور راحت محسوس کرتے ہیں۔ پیزا ریسٹورنٹ اور فوڈ سنٹرز پر خصوصی توجہ ہے۔ کتابوں سے عدم دلچسپی کے باعث دکاندار اپنی دکانیں ختم کرنے پر مجبور ہیں جو بہت بڑا المیہ ہے۔ کتاب انسانیت کی بقاء کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ علم حاصل کرنے پر انتہائی زور دیا گیا ہے۔ اسلام میں علم حاصل کرنے کی بہت زیادہ فضلیت بیان کی گئی ہے۔ عالم کا درجہ بہت بلند ہے۔ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ماں کی گود سے لے کر قبر تک علم حاصل کرو۔ علم حاصل کرنے خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ انسان کی اصل دوست اور رہنما کتاب ہوتی ہے۔ جس سے آدمی بہت کچھ سیکھ سکتا ہے اور رہنمائی حاصل کرسکتا ہے۔ نسل نو کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیئے کہ کتاب سے فرار کسی طور پر بھی ممکن نہیں ہے۔
حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں صرف 27 فیصد عوام کتب بینی کے شوقین ہیں، جبکہ 73 فیصد عوام نے کتب بینی سے دوری کا اعتراف کیا ہے۔ تاہم دانشور طبقے کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کی یلغار کے باوجود کتاب کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ مطالعے میں کمی کی بڑی وجہ کتاب کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں مطالعے کا اشتیاق تو ہے، مگر کتاب اب عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہو گئی ہے۔ آج دنیا کے 28 ممالک ایسے ہیں، جہاں سب سے زیادہ کتابیں فروخت ہوتی ہیں، مگر ان 28ممالک میں ایک بھی مسلمان ملک نہیں۔ افسوس! مسلمان اپنی علمی شان بھلا بیٹھے اور اہل یورپ نے مسلمانوں کے علمی مراکز، بالخصوص ہسپانوی مراکز سے استفادہ کر کے تحقیق کی دنیا میں قدم رکھا۔ ہمارے آباؤ اجداد کی محنت آج بھی لندن کی ”انڈیا آفس لائبریری” میں موجود ہے۔ ان کتب کی تعداد 6لاکھ کے قریب ہے۔ ان میں عربی، فارسی، ترکی اور اردو میں قلمی کتابوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ لندن کے بعد پیرس لائبریری میں مشرقی زبانوں میں لکھی کتابوں کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔
ایسے میں قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن، حکومت پاکستان کے زیراہتمام نیشنل بک فائونڈیشن کا قومی کتاب میلے کا اہتمام چمن میںتازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہے۔ یہ تو اللہ بھلا کرے جناب ابرار شاہی صاحب کا کہ جہنوں نے ہمیش ملک ایڈوکیٹ کے ہمراہ قومی کتاب میلے کا دورہ کیا اورابن عربی رحمتہ اللہ کی کتب کا ترجمہ کردہ اپنی کتاب “فصوص الحکم”کو احمد بک پبلشرز کے ذریعے اس کتاب میلے کا حصہ بنایا۔میلے کے دوسرے دن انہوں نے ہمارے عزیز دوست ملک محمد عثمان ایڈوکیٹ کو فون کیا جو خود کتابوں کے دلدادہ ہیں ۔ کتابیں خریدنا اور پڑھنا ان کا اولین مشغلہ ہے، کہ وہ میلے میں شرکت ضرورکریں ۔ یہ سننا تھا کہ ملک عثمان ایڈوکیٹ نے ناچیز کا نمبر گھما دیا اور اپنے ارادے بارے آگا ہ کیا۔ اگرچہ میرا بھی پروگرام تو تھا کہ میلے میں شرکت کروں مگر مصروفیات کی وجہ سے پروگرام التوا کا شکار تھا۔ جب ملک عثمان ایڈوکیٹ کی کال آئی تو انکار ممکن نہ تھا ۔ جھٹ سے کہ دیا کہ تیار ہوں ، چلتے ہیں۔ اور یوں ہم چاروں پاک چائنا فرینڈ شپ سینڑ اسلام آباد جا پہنچے۔ جو نہی ہم وہاں پہنچے، اسلام آباد کا سہانا موسم اور گھنگور گھٹائوں نے ہمارا استقبال کیا۔ اندر داخل ہوئے تو سیدہ ہما طاہر نے ہمارا استقبال کیا اور اپنی کتاب “پروازِ ہما” کی تقریب رونمائی میں شرکت کا پروانہ ہمارے ہاتھ میں تھما دیا۔ آگے بڑھے تو سینئرصحافی و کالم نگار شمشاد مانگٹ صاحب سے ملاقات ہوگئی جنہوں نے ملنے کے فوراً بعد پہلا سوال کیا کہ آج کل آپکے کالم نہیں آ رہے ؟ جواب تھا کہ مصروفیت کی وجہ سے لکھ نہیں پا رہا! جواب ملا یہی تو میں کہہ رہا ہوں۔ بس پھر کیا تھا سوچا اب تو لکھنا ہی پڑے گا۔
میلے میں ملک بھر سے پبلشروں کی ایک کثیر تعداد نے اپنی مطبوعہ کتابوں کے اسٹال لگا رکھے تھے جہاں کتابوں پر وہ آدھی قیمت تک ڈسکاونٹ دے رہے تھے۔جبکہ مختلف کمروں اور ہالوں میں مختلف کتابوں کی تقریبات رونمائیاں بھی جاری تھیں۔ایسی تقریبات کا منعقد ہونا واقعی ایک اچھا اور مستحسن اقدام ہے اور اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔میری یہ حکام بالا سے تجویز ہے کہ نوجوان نسل میں کتاب سے ناطہ جوڑنے کے لیے اس طرح کے کتاب میلے ہر ضلع اورتحصیل کی سطح پر منعقد کیے جانے چاہیں جہاں کتابیں ارزاں قیمت پرمہیا کی جائیں۔
قومی کتاب میلے کی خوشیوں اور رنگینیوں نے اس وقت غم کی چادر اُوڑھ لی جب میلے کے آخری دن ممتاز شاعرہ فرزانہ ناز دیو ہیکل اسٹیج سے اچانک گر کر شدید زخمی ہو گئیں اور بعدازاں شفاء انٹرنیشنل ہسپتال میں دَم توڑ گئیں۔ انا اللہ وانا علیہ راجعون۔اللہ پاک مرحومہ کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے ۔ فرزانہ ناز کا گذشتہ سال ہی پہلا شعری مجموعہ “ہجرت مجھ سے لپٹ گئی ہے”شائع ہوا تھا جسے کافی پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔