تحریر : علی عمران شاہین 16 اپریل کو ترکی میں بالآخر وہ ریفرنڈم مکمل ہو گیا جس کے حوالے سے دنیا بھر میں بحث جاری تھی۔ اس ریفرنڈم کا مقصد واضح تھا کہ ملک کی پارلیمانی سیاست کے نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کر دیا جائے۔ریفرنڈم میں 86فیصد لوگوں نے حق رائے دہی استعمال کیا اور پھر حتمی نتائج میں51.4فیصد لوگوں نے رائے دی کہ واقعی نظام بدل دیا جائے۔ اس کے بعد اب ملکی نظام میں وزیراعظم کا عہدہ جہاں ختم ہو جائے گا، وہیں موجودہ صدر رجب طیب اردوان 2029ء تک عنان حکومت سنبھال سکیں گے۔ رجب طیب اردوان نے ترکی کی حکومت مارچ2003ء میں سنبھالی تھی ۔ اس وقت حالت یہ تھی کہ ملک عالمی استعمار ی طاقتوں بشمول آئی ایم ایف کا مقروض تھا۔ ”یورپ کا مرد بیمار” اس کا لقب اور پہچان تھی۔ چند سالوں میں اسی رجب طیب اردوان ، جس کا بچپن استنبول کی سڑکوں پر غربت کے باعث شربت بیچ کر گزرا تھا، نے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے وطن کی باگ ڈور سنبھال کر اسے ترقی و خوشحالی کی نئی راہ پر ڈال دیا۔
آج وہی ملک دنیا کی 20بڑی معیشتوں جنہیں G20کا نام دیا جاتا ہے، میںشامل ہے اور سعودی عرب کے بعد اس گروپ میں شامل اکیلا دوسرا مسلمان ملک ہے۔ ملکی ترقی تیز ہوئی تو سارے قرضے اتار دیئے گئے۔ کرنسی تیزی سے مستحکم ہوئی۔ ہر شعبہ زندگی میں ترکی بہت تیزی سے آگے بڑھا تو ساتھ ہی ساتھ 80سال سے لادینیت اور اسلام کش پالیسیوں اور قوانین کے اندھیروں میں ڈوبے ترکی کو رجب طیب اردوان نے اسلام کی روشنی دکھانا شروع کی۔ آج کے دور میں جب اسلام کا نام تک لینابھی جان جوکھم سے کم کا کھیل نہیں کہ ”اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں” وہی ترکی جس میں خواتین کے سر پر دوپٹہ تک اوڑھنے پر پابندی تھی، آج وہیں خواتین کی اکثریت باحجاب ہے۔
شراب خانے تیزی سے ویران ہو رہے ہیں۔ ایک شہر استنبول جسے پہلے ہی مساجد کا شہر کہا جاتا تھا، وہیں نہیں، پورے ملک میں ہزاروں نئی مساجد بنیں۔ جہاں قرآن پڑھنا جرم تھا، اس ملک کا صدر قرآن کریم کا قاری نکل آیا۔ وہی ترکی جس کی عرب دنیا کے ساتھ قریباً ایک صدی کی چپقلش اور رنجش چلی آ رہی تھی،کے عرب دنیا کے ساتھ خوشگوار تعلقات استوار ہوئے۔ ترک صدر نے سب سے بڑے خطرے یعنی الگ کردستان کے علمبردار کردوں کوانتہائی خوش اسلوبی سے قائل و مائل کر کے قومی دھارے میں شامل کیا تو اسلام دشمن طاقتوں نے جہاں شام میں بہت بڑے فساد کو پروان چڑھا کر ترکی کو اس میں گھسیٹا، وہیں کردوں کو ایک بار پھر بغاوت پر آمادہ کر کے ترکی کے خلاف میدان جنگ میں اتار دیا گیا۔ کیسی دلچسپ بات ہے کہ کُرد اپنے مجوزہ ”کردستان” کے ترکی کے علاوہ شام، عراق، آرمینیا اور ایران میں بھی دعویدار ہیں لیکن وہ مکمل صلح کر کے بھی جنگ صرف ترکی سے کر رہے ہیں۔ اس پر مستزاد وہ عراقی و شامی حکومت کے مخالفین کے خلاف باقاعدہ جنگی حلیف و اتحادی بھی ہیں۔ ان کردوں نے ہی حالیہ دو برسوں میں ترکی میں جگہ جگہ حملے اور دھماکے کرکے ہزاروں لوگوں کو قتل و زخمی کیا ، خوف و ہراس پھیلایا۔ شام کی جنگ سے بے گھر ہونے والے 30لاکھ شامی مہاجرین اس وقت ترکی میں پناہ گزین ہیں اور ترکی بغیر کسی عالمی امداد یا کسی ملک کے تعاون کے ان کی مکمل کفالت کر رہا ہے۔ با الفاظ دیگر شام کا سارا بوجھ بھی اب ترکی کے سر ہے۔
ان بدترین حالات کارجب طیب اردوان نے انتہائی فہم و فراست سے مقابلہ شروع کیا۔ برما، کشمیر، فلسطین سمیت دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی حَتُّی المقدور مدد اور ان کے حق میں آواز بلند کر کے ان کی دعائیں لینا شروع کیں تو آج ترکی سعودی عرب کے ساتھ مل کر مسلم دنیا کا رہبر بننے کی پوزیشن میں ہے حالانکہ مسلم دنیا کا سب سے بڑا ملک تو انڈونیشیا ہے جس کا اس میدان میں کہیں نام نہیں۔ ترکی کے مخالفین اپنے سارے شیطانی کردار اور حربے لے کر میدان میں موجود ہیںتو مسلم اُمہ کی ذمہ داری ہے کہ رجب طیب اردوان، سعودی عرب اور پاکستان کے ہاتھ مضبوط کر کے عالمی منظر نامے میں ”حصہ بقدر جثہ” حاصل کرنے کے لئے آگے آئیں۔ اسی حصے کے حصول اور کردار کے لئے 15دسمبر 2015ء کو سعودی عرب کے وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلیمان نے 34مسلم ممالک کی فوجوں کا اپنے ملک میں اکٹھ کر کے ان کی جنگی مشقیں منعقد کروا کے مسلم دنیا کے پہلے عسکری اتحاد کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ 34 ملکوں کی فوجوں اور ان کی مشقوں کے تمام اخراجات سعودی عرب نے برداشت کئے تھے تو اس کا مرکز بھی ریاض ہی بنا تھا۔ اس اتحاد کے سربراہ شہزادہ محمد بن سلیمان قرار پائے تھے۔ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد سعودی عرب سے یہ خبر آئی تھی کہ پاک فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف کو ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی مسلم دنیا کے اس عظیم الشان اتحاد کی کمانڈ دی جائے گی اور پھر ایسے ہی ہوا۔ 15جنوری 2017ء کو پاکستانی حکومت کے عہدیداران کی طرف سے اعلان ہوا کہ جنرل راحیل شریف مسلم اتحاد کے سربراہ مقرر ہو چکے ہیں۔ انہی دنوں جنرل راحیل شریف سعودی عرب کے دورے پر تھے۔ ہمارے ہاں کچھ نابغوں نے محض ”مخالفت برائے مخالفت” کی راہ اپناتے ہوئے اس فیصلے پر ناک بھوں چڑھانا شروع کر دی کہ” اس سے نقصان ہو سکتا ہے۔ ”کیا نقصان ہو سکتا ہے؟ اس پر ایک ہی جواب کہ ہمارا پڑوسی ملک ایران ناراض ہو جائے گا جو اس اتحاد کا حصہ نہیں ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایران کو اس اتحاد میں شامل ہونے سے کسی نے نہ روکا ہے اور نہ سعودی حکومت کی جانب سے ایسا کوئی بیان آیا۔ ایسے لوگوں کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ ہر ملک اپنے مفادات کو دیکھ کر پالیسیاں بناتا اور انہیں پروان چڑھاتا ہے۔ اس وقت پاکستان جہاں سی پیک جیسے عظیم الشان منصوبے کی تکمیل کیلئے سرگرم ہے، ایران نے بھارت سے معاہدہ کر کے گوادر کے متوازی چاہ بہار بندرگاہ بنانے کا اعلان کیا۔ بھارت سے طرح طرح کے فوجی و معاشی معاہدے کئے تو کیا ایران نے اپنے پڑوسی پاکستان سے اس حوالے سے کوئی صلاح و مشورہ کرنا یا اس کے مفادات کو زیربحث لانا مناسب سمجھا؟ ایران ہمارا پڑوسی ملک ہے اور ہمیں ہر پڑوسی کے ساتھ تعلقات اچھے اور دوستانہ رکھنے چاہئیں، ہم تو بھارت کے ساتھ بھی کسی جنگ یا محاذ آرائی کے قائل نہیں۔ اس سے بھی ہمارا جھگڑہ کشمیر اور ہمارے ان غصب حقوق کا ہے جنہیں بھارت دبائے بیٹھا ہے۔کشمیر کا مسئلہ تو عالمی تسلیم شدہ تنازعہ ہے جسے حل ہونا چایئے، یہی بھارت اگر مسئلہ کشمیر کے حل کے ساتھ دہشت گردی روک دے تو چپقلش ہی ختم ہو جائے؟ مسلم عسکری اتحاد میں اب تک سوائے چار ،پانچ ملکوں کے سارا عالم اسلام شامل ہے، اس اتحادکا تعلق قطعاً سنی یا شیعہ معاملے سے نہیں ہے وگرنہ شام میں بشار الاسد کی دست و بازو شیعہ حزب اللہ کا مرکز لبنان اور شیعہ اکثریتی ملک آذربائیجان اس کا حصہ نہ ہوتے۔ مسلم دنیا کا یہ عسکری اتحاد صحیح معنوں میں مسلمانوں کا ترجمان اتحاد ہے جس کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر یورپ نیٹو بنا سکتا ہے تو مسلم دنیا ایسا کیوں نہیں کر سکتی۔ اتنے بڑے اتحاد کی کمان پاکستان کے ایک جنرل کو ملنا بہت بڑی کامیابی اور اعزاز ہے۔ پاکستان کو یہ اعزاز اگر ملا ہے تو اس کی وجہ اس کی مضبوط فوجی و عسکری قوت اور خصوصاً اس کی ایٹمی صلاحیت ہے۔ اب ہمیں اس اتحاد کی کامیابی کیلئے منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔ مسلم دنیا کو جو چیلنجز درپیش ہیں، ان کے حل کے لئے مشترکہ پالیسی بنانا ہو گی۔ پاکستان کی فوجی قوت کو مسلم دنیا اپنی قوت سمجھتی ہے، ہمیں اس کا مظہر بننا ہو گا۔ اگر ہم یہ سب کچھ کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو مسلم دنیا نہ صرف دہشت گردی کی لعنت سے چھٹکارا پا لے گی بلکہ اس پر جاری ظلم و ستم کا بھی خاتمہ ہو گا ،کشمیر و فلسطین جیسے دیرینہ مسئلے بھی حل ہونے میں ذرا دیر نہیں لگے اور عالم اسلام باعزت راہ پرگامزن ہو سکے گا۔
Logo Imran Shaheen
تحریر : علی عمران شاہین (برائے رابطہ:0321-4646375)