تحریر : حفیظ خٹک خود کو دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک کہنے والا بھارت، حقیقت میں اقوام متحدہ کے دو سوسے زائد ممالک میں سب سے بڑا منافق ، غیر جمہوری اور سب سے زیادہ ظالم ملک ہے۔ لفظ جمہوریت نام کا وہاں اس انداز میں قتل عام ہو چکا ہے، ہورہا ہے جس کی مثال دنیا کے کسی اور گوشے میں نہیں۔ انسانوں کی زبان، ان کے احساسات کو سمجھنے اور ان کے مطابق کوئی بھی قدم اٹھانے کی بھارت میں کوئی روایت نہیں۔ اس ملک کو اگر کوئی عمل آتا اور بھاتا ہے تو وہ ظلم پر ہی مبنی ہوتا ہے، دیگر مذاہب کے لوگوں کو ختم کرنا اس بھارت کے ہر حکمران جماعت کا وطیرہ رہاہے۔
بھارت میں جو جماعت جس قدر مظالم ڈھانے میں آگے ہوگی اسی جماعت کو وہاں کی عوام ووٹ دیکر حکومت کے تخت تک لائے گی اور پھر وہ جماعت حکومتی تخت پر بیٹھ کر قانونی انداز میں مسلمانوں ، سکھوں اور عیسائیوں سمیت دیگر قوموں پر مظالم کے نئے نئے باب ڈھاتا چلاجاتا ہے۔ بھارتی ماتاو ¿ں کی ان حرکات و سکنات کو دنیا کی کوئی ایٹمی قوت ، سلامتی قوتیں ، اقوام متحدہ کے اراکین اور ان کے ساتھ مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی تک کا تنقیدی نظروں سے دیکھنا تو درکنار ان پر بات کرنا ، اقدامات کی مذمت غرض کچھ بھی کر گذرنے کی جانب آگے نہیں بڑھنا محال ہے۔ بھارت کا ہر اقدام اس کے اس دنیا میں سب سے بڑے ظالم ملک کے ہونے کا ٹھوس اور واضح ثبوت ہے۔ کشمیر یوں پر اس کا ظلم اک مدت سے جاری ہے اور پاکستان سمیت دیگر ملکوں کے روئیے کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھارت کا یہ عمل جاری رہے گا۔ نصف صدی سے زائد مدت گذر جانے کے باوجود اقوام متحدہ نے کشمیریوں کی آواز نہیں سنی اور نہ ہی ان کے مسائل کو حل کرنے کیلئے کوئی بھی ٹھوس اقدام کیا ہے۔ اگر ماضی میں کبھی اس معاملے پر بات ہوئی بھی ہے تو اسے بھارت نے اپنی روش پر عمل پیراہوتے ہوئے رد کیا ہے اور اس بندش میں اس کا ساتھ اس دنیا کے ظالم ملکوں نے دیا ہے۔ کئی دہائیوں سے کشمیریوں پر مظالم کے باب جاری ہیں جن سے اب تک ان کی آہ بقا تک نکل رہی ہے۔ لیکن مظلوموں کی یہ آہ و بقا کسی ترقی یافتہ ملک کو یورپ و امریکہ یا کسی بھی اور کو دیکھائی نہیں دئے رہی۔ کشمیر کے معاملے پر اقوام متحدہ نے اب تو اس طرح کا رویہ اختیار کر لیا ہے کہ جیسے کشمیر کا کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں۔
یہ ایک پرانا کیس ہے جو کہ اب ان کیلئے حل کرنا ضروری نہیں۔ جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں کسی عیسائی کے ساتھ یا کسی اور قوم کے ساتھ ظلم ہوا تو اقوام متحدہ کے اکثریتی ممالک نے مل کر اس مسئلے کو حل کیا اور اس کو اس اندازمیں حل کیا کہ مسلم ممالک تک میں انہیں ایک الگ ملک بنا کر دئے دیاگیا۔ لیکن ایسا عمل اگر نہیں ہوا تو صرف مسلمانوں کے ساتھ ، ان کے ساتھ واقع مسائل کو حل کرنے کے معاملے میں اپنی منافقانہ روش پر چلتے ہوئے اسے پورا کیا۔ دنیا کی ساری آبادی آج کسی ملک میں ہونے والے ظلم کو دیکھتی ہے تو اس کی ترجیح اس بات پر بھی ہوتی ہے کہ وہ یہ معلوم کرلے کہ وہ ملک مسلمان ہے یا کوئی اور ملک۔ اگر تو وہ مسلم ملک ہے تو چند جملوں سے زیادہ بات کو آگے نہیں لے جایا جاتا البتہ اگر وہ معاملہ کسی عیسائی ، ہندو، یہودی ملک میں واقع ہوا تو پھر اپنی تمام تر توجہ اسی ایک معاملے پر مرکوز کرکے اس کو اپنے انداز میں حل کرنے کی کوشش اس وقت تک ہوتی ہے جب تک وہ معاملہ حل نہیں ہوجاتا۔ لیکن افسوس در افسوس مسلم حکمرانوں پر ، ان کے عمل پر ان کی چالوں پر اور ان کے کرداروں پر ،ان کا اعمال ان کے اقدام درحقیقت مسلمانوں پر ان دنوں آئے ہوئے مصائب کی وجہ ہیں۔ تاریخ ان حکمرانوں کو انکے ان کرداروں کے باعث بہت اچھے اور اوچھے لفظوں میں یاد رکھے گا۔
گذشتہ کئی دنوں سے کشمیر میں جو زندگی پر ستم ڈھائے جارہے ہیں ، انسانوں کو جس انداز میں ختم کیا جارہا ہے ، زخمیوں کو ، بیماروں کو بازاروں میں بھارتی فوج جس انداز میں روند رہی اس کی مثا ل کہیں نہیں مل پاتی درجنوں کشمیریوں کو بے پناہ ظلم ، تشدد کے بعد ختم کردیا گیا ہے۔ سینکڑوں ، ہزاروں کو زخمی کر کے کشمیر میں انسانوں کی زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دیا گیا ہے لیکن نام نہاد دنیا کی جمہوری حکومتوں کو بھارت کا یہ انداز نظر نہیں آیا اور نہ ہی آرہا ہے۔ تاہم انہی بڑے بڑے ممالک کو کشمیر یوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کیوں کر نظر نہیں آتے ؟کیوں کر اقوام متحدہ کے سیکریٹری بان کی مون کی زبان اس معاملے میں خاموش دکھتی ہے ؟ او آئی سی کیوں سوئی ہوئی ہے؟ اسلامی ممالک کے سربراہان کیوں خواب خرگوش میں ہیں اور کب تک رہیں گے؟ کشمیری عوام دہائیوں سے بھارتی مظالم کو برداشت کر رہی ہے ، ان کے جوان اب آزادی کیلئے کمر بستہ ہوچکے ہیں ان کے ان احساسات کو بھارتی عوام جان چکی ہے ،بھارت کے سکھ بھی اب کشمیری عوام کے حقوق کی بات کرنے لگ گئے ہیں ، کشمیری جو پاکستان کیلئے جیتے ہیں ، پاکستان کا نام لیکر نعرے لگاتے ہیں ، اپنے مظاہروں میں پاکستانی پرچم لے کر آتے ہیں اور اپنے شہداءکے جنازوں تک میں پاکستانی پرچموں کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کررہے ہوتے ہیں لیکن پاکستان کی حکومت کا کردار شاید انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ حکومت کی بہ نسبت عوام کا رویہ کشمیری عوام کو معلوم ہے ، پاکستانی عوام کشمیری عوام کے ساتھ تھی ، ہے اور اس وقت تک رہے گی جب تک کشمیر پاکستان کا حصے نہیں بن جاتا۔
کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف پاکستان کی متعدد سیاسی ،مذہبی جماعتیں میدان عمل میں آگئیں ہیں۔ حکومت کی بھی آنکھ کھل گئی ہے ۔جماعتہ الدوا پورے ملک میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیلئے اپنا کردار ادا کر رہی ہے ۔اس نے ماضی میں بھی کشمیر یوں کواپنایا ہے اور اب بھی اپنائے ہوئے ہیں ۔ ان کے امیر حافظ سعید کو تو 75سے زائد دن ہوگئے ہیں ہماری حکومت نے انہیں نظر بند کر دیا ہے جب کہ یہی حافظ سعید ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ یہ سال کشمیریوں کا سال ہے اور ان شاءاللہ کشمیر یوں کی جدوجہد جلد کامیابی سے کہ ہمکنار ہوگی ۔ بس یہ کہنا تھا کہ اس کہنے پر حکومت نے انہیں نظر بند کر دیا تاہم کشمیر عوام اس اقدام سے ذرا بھی پیچھے نہیں ہوئی بلکہ ان کی جدوجہد تو اور بھی بڑھ گئی ہے ۔وہاں کا ہر فرد کشمیر کی آزادی کیلئے اب ہمہ تن پرجوش ہے اور بھارت اپنی تمام تر مکاریوں کے باوجود انہیں قابو میں رکھنے کی اور ان کی آواز کو دبانے کی بھرپور ناکام کوششیں کر رہا ہے ۔ حکومت پاکستان کی ، ذرائع ابلاغ کی اور ان کے ذریعے پوری دنیا کی توجہ کشمیر یوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر مرکوزکرنے کیلئے جماعتہ الدوا اپنی نے اپناکردار اداکرنے کی کوشش کی ہے اور اس سلسلے کو جاری رکھا ہوا ہے۔ مظاہروں میں بچوں سے لیکر خواتیں تک ، بوڑھوں سے لیکر جوانوں اور نوجوانوں تک ہر شعبہ زندگی کے لوگوں نے اپنا کردار ادا کیا۔ کشمیری عوام کو یہ پیغام دیا کہ وہ تنہا نہیں ہیں بلکہ پوری پاکستانی عوام ان کے ساتھ تھی ،ہے اور رہے گی۔ عوام کا یہ ساتھ کشمیری عوام کے ساتھ اک جسم کی مانند رہے گا ،جہاں اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو وہ پورا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔
تاہم قابل توجہ ہیں وہ لوگ وہ ادارے وہ جو کشمیر کے معاملے پر اپنا کردار ادانہیں کرتے ، شہر قائد میں دو نشستیں آزاد کشمیر اسمبلی کی موجود ہیں لیکن اب تک ان کی جانب سے کسی نے بھی اس جانب توجہ نہیں دی ہے ، نہ مظاہرہ کیا ہے اور نہ کسی مظاہرے کی قیادت کی ہے۔ ان حالات میں ان کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیر کے اس حصے کو یاد رکھیں اور ان کی تکالیف کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کیلئے آواز بلند کریں ، ان کے ساتھ ہی ہمارے ذرائع ابلاغ کو بھی اپنے کرداروں کا جائزہ لینا چاہئے۔ اخبارات میں بھارتی مظالم کی خبروں سے زیادہ خبریں ان کی اداکاراو ¿ں کی ہوتی ہیں ، ان کے شوبز کی ہوتی ہیں ، عوام اخبار کے پہلے دوسرے صفحے پر اگر بھارتی مظالم کو پڑھ لیں اور پھر اندر کے صفحات بھارتی فلموں اور شوبز سے بھرے ہوں تو جانئے اور کچھ سوچئے بھی کہ عوام اس کا کیا اثر لے گی۔ اس کے ساتھ ہی ہماری فلمی صنعت کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ کہ بھارت کے کشمیری بھائیوں پر مظالم کے شب و روز میں ان فلموں کا بائیکاٹ کرنا چاہئے اگر فلمی صنعت نے ایسا اقدام نہیں اٹھایا تو کوئی بعید نہیں کہ عوام خودہی یہ اقدامات اٹھانے لگ جائیں۔
کیبل نیٹ ورک کی سروسز کو بھی ان نکات کو مدنظر رکھنا چاہئے بھارت کی فلمیں اور ان کے ڈرامے ہی ان کے کام نہیں ہیں بلکہ اس سے ہٹ کر بھی واضح موقف کے ساتھ وہ اپنے کاموں کو اس انداز میں لے کر چل سکتے ہیں کہ جس سے وہ کشمیریوں کے ساتھ کھڑ ے ہونے والوں کی صف میں کھڑے نظر آئیں۔ اس بار بھارت نے جس انداز میں کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ ڈھائے ہیں اس پر انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی بھارت کو مظالم سے باز رکھنے کیلئے اپنا کردار اداکرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان ان دنوں جس طرز کے حالات سے گذر رہا ہے دنیا کی اس پر نظر ہے شہر قائد سے چین تک بننے والی شاہراہ پر سپر پاورز کی نظریں ہیں ، ان حالات میں بھارت پاکستان دشمن ممالک کے جذبات کو تقویت پہنچانے کیلئے اوچھے اقدامات پر اتر آیا ہے ، کشمیریوں پر حالیہ ،مظالم کی لہر بھی اسی کی ایک لہر ہے۔درجنوں مجاہدوں کو شہید کر کے سینکڑوں کو زخمی کر کے اور پورے کشمیر میں کرفیو نافذ کر کے بھی اس کے مذموم مقاصد ابھی پورے نہیں ہوئے ، پوری کشمیری عوام نے طے کر لیا ہے کہ وہ بھارت کا نہ تو حصہ تھے ، نہ ہیں اور نہ ہی مستقبل میں رہیں گے۔ وہ اس سے الگ ہوکر پاکستان کے ساتھ دل و جان سے ملیں گے۔ چاہے اس کیلئے دنیا بھر کی سپر پاورز ، اقوام متحدہ کے اراکین ممالک اور تمام اسلامی ممالک اس کا ساتھ دیں یا پھر اسی انداز میں خاموشی کا مظاہرہ کریں جو وہ برسوں سے رکھے ہوئے ہیں۔ وہ بحرحال پاکستان کے ساتھ تھے، ہیں اور پاکستان کے ساتھ رہیں۔ کشمیر اٹوٹ رنگ ہے۔کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے ، لہذا پاکستان کو مکمل ہونے اور کرنے کیلئے حکومت پاکستان اور عوام کو کشمیریوں کا ساتھ دینا ہے اور دیتے رہنا ہے۔