تحریر : علی عبداللہ یبوسیوں کو یقین تھا کہ یہ نوجوان کبھی اس شہر کو فتح نہیں کر پائے گا جو نوخیز بادشاہت کے ساتھ ایک پرانے اور مضبوط قلعہ بند شہر کو تسخیر کرنے نکلا تھا _ یبوسیوں نے مشہور کر رکھا تھا کہ یہ شہر ناقابل تسخیر ہے اور یہ اپنے دشمن کی تضحیک کے لیے کہا کرتے تھے کہ ہماریے لنگڑے اور اندھے بھی دشمن کو یہ شہر فتح کرنے سے روک سکتے ہیں _ اس سب کے باوجود یہ نوجوان بادشاہ آہنی ارادوں کے ساتھ اس شہر پر حملہ آور ہوا اور کامیابی حاصل کی _ 1000 ق م میں فتح ہونے والا یہ شہر یروشلم تھا اور اسے فتح کرنے والا نوجوان بادشاہ حضرت داؤد علیہ السلام تھے _ اتنا مضبوط شہر کس طرح فتح ہوا تاریخ میں اس کے نقوش دھندلے اور نامکمل ہیں لیکن اس فتح نے یروشلم کو دنیا کا ایک مقدس اور ساتھ ہی ایک متنازعہ شہر بنا دیا۔
یروشلم کب آباد ہوا اس کا علم کسی کو نہیں لیکن یہاں کچھ قبروں سے ملنے والے مٹی کے برتنوں کے بارے ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ 3200 سال ق م کے ہیں _ لہٰذا ابھی مکمل وثوق سے کہنا ممکن نہیں کہ یہاں شہری زندگی کا کب آغاز ہوا _ کچھ لوگوں کے نزدیک 18 ویں صدی ق م کے دوران یروشلم قبائلی معاشرے سے ترقی کر کے ایک سیاسی وحدت کا حصہ بن چکا تھا جہاں ایک بادشاہ کی حکومت تھی۔
باقی مذاہب کی طرح مسلمانوں کے لیے بھی یہ شہر نہایت مقدس ہے _ اسلام کے اولین دور میں اسے مسلمانوں کا قبلہ اول ٹھہرا کر اس کی عظمت کو اجاگر کیا گیا اور کئی عظیم انبیاء کی اس شہر سے نسبت رہی ہے _ معراج کے واقعے میں بھی اس شہر مقدس کا ذکر ہے اور یہاں نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء کی امامت کی اور پھر یہیں سے وہ آسمانوں کی طرف گئے _ قران کی آیت سبحان اللہ الذی اسریٰ بعبدہ لیلامن المسجد الحرام الی الاالمسجد الاقصیٰ اسی یروشلم میں موجود مسجد کا ذکر کرتی ہے _ اسی طرح مشہور ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی یہاں سے ہی آسمانوں پر اٹھایا گیا تھا۔
فروری 638ء میں مسلمانوں نے یروشلم کے عیسائیوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا اور وہاں کے اسقف اعظم صفرونیئس نے فاروق اعظم رض کے علاوہ کسی اور کو چابیاں دینے سے انکار کیا تو حضرت عمر رض خود یروشلم تشریف لائے اور صفرونیئس سے ملاقات کی _ اس واقعہ میں حضرت عمر رض کے سادہ لباس پر بعض عیسائی مؤرخین نے طنز کیا ہے اور کہا ہے کہ مسلمانوں کے خلیفہ نے ریاکاری سے کام لیا تھا _ لیکن ایک مشہور مؤرخ کیرن آرمسٹرانگ کے مطابق “یہ مبصرین اس بات کو آسانی سے سمجھنے سے قاصر تھے کہ خلیفہ عمر رض مسیحی تصور مقدس غربت پر عیسائی منصب داروں سے زیادہ ایمانداری کے ساتھ کس طرح عمل پیرا ہو سکتے ہیں ” حضرت عمر رض نے ہیرودیس کی شاہی بالکنی کے مقام پر مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا اور موجودہ مسجد اقصیٰ اسی مقام پر موجود ہے _ یہ مسجد لکڑی کی سادہ عمارت تھی جو اسلام کی سادگی کا مظہر تھی _ 670ئ میں ایک عیسائی مؤرخ نے اس مسجد کی زیارت کی اور لکھا کہ ” مسلمان ایک چوکور عبادت گاہ میں بار بار آتے ہیں _ یہ عبادت گاہ انہوں نے تختوں اور بڑے ستونوں کی مدد سے کھنڈر کی باقیات پر بھدے طریقے سے بنائی ہے _ یہ اس قدر وسیع ہے کہ یہاں تین ہزار لوگ بیک وقت اکھٹے ہو سکتے ہیں ” دور فاروقی میں محکوم عوام مسلمانوں کے عمدہ اور منصفانہ سلوک پر نہایت مطمئین تھے کیونکہ بازنطینی قوانین کے مقابلے میں یہ قوانین محکوم عوام کے لیے بہت بہتر تھے۔
644ء میں شہادت فاروقی کے بعد حضرت عثمان رض نے یروشلم میں سلعوم کے تالاب کے ساتھ غریبوں کے لیے ایک عوامی باغ تعمیر کروایا _ حضرت عثمان رض کے مختصر دور حکومت میں یروشلم میں اس باغ کے علاوہ کسی اور خدمت کا ثبوت نہیں مل سکا _ ان کی شہادت کے بعد حضرت علی رض کے دور میں مسلم حکومت خانہ جنگی کا شکار رہی یہاں تک کہ 661ئ میں حضرت علی رض کی شہادت ہوئی اور پھر حضرت معاویہ رض نے یروشلم میں بھی اپنے خلیفہ ہونے کا اعلان کیا _ اگلے 90 سال تک امویوں نے حکومت کی اور اس دور میں یروشلم پر نہایت توجہ دی گئی _ حضرت معاویہ جب بھی شام کا دورہ کرتے یروشلم ضرور آیا کرتے تھے اور وہاں کی عوام کے حالات معلوم کرتے _ ان کی شہادت کے بعد پھر سے خانہ جنگی کا آغاز ہوا اور یہ سلسلہ 684 تک جاری رہا۔
عبدالملک 685 میں جب بر سر اقدار آیا تو اس کی یروشلم سے عقیدت قابل دید تھی _ اس نے ایک نیا عرب نظام وضح کیا اور اس نے شہر کی دیواروں اور دروازوں کو مرمت کروا کر حرم کے قریب ایلیائ کے گورنر کی رہائش گاہ دارامامہ تعمیر کروائی _ عبدالملک کا سب سے اہم کارنامہ قبة الصخرا کی تعمیر تھی جو اس نے 688 میں کروائی _ دسویں صدی میں یروشلم کا ایک مؤرخ مقدسی کہتا ہے کہ “الشام کے چرچ اتنے خوبصورت تھے کہ مسلم حکمران کو خوف محسوس ہوا کہ کہیں مسلمان احساس کمتری کا شکار نہ ہو جائیں “چناچہ اس نے ماہر تعمیرات بلوا کر یہ گنبد بنوایا _ اس کے اندر قرانی آیات کندہ کروائی گئیں جن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خدا کا بیٹا ہونے کے عقیدہ کی تکذیب کی گئی ہے۔
705 میں خلیفہ الولید عبدالملک کا جانشین بنا _ اس نے اپنے آباؤ اجداد کی طرح یروشلم کی تعمیر و ترقی اور اس کی شان و شوکت میں اضافہ جاری رکھا _ اسی نے مسجد عمر رض کی سادہ عمارت کی جگہ ایک پرشکوہ عمارت تعمیر کروائی لیکن یہ ایک زلزلے سے منہدم ہو گئی تھی _ خلیفہ کے بیٹے سلیمان نے یروشلم کو دارالخلافہ بنانے کا منصوبہ بنایا لیکن بعض وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ قابل عمل نہ ہو سکا _ 747 میں آنے والے تباہ کن زلزلے نے اور آٹھویں صدی میں خانہ جنگی کی وجہ سے اموی حکومت زوال کا شکار ہو گئی اور بالآخر عباسیوں نے حکومت سنبھالی اور دارالخلافہ بغداد لے گئے جس کے یروشلم پر سنگین اثرات مرتب ہوئے _ خلیفہ ہارون الرشید وہ پہلا عباسی حکمران تھا جس نے یروشلم آنا ضروری نہ سمجھا _ اور اس کے بعد سے عباسیوں نے اس شہر سے لاتعلقی شروع کر دی _ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ یروشلم امویوں کا پسندیدہ شہر تھا _ درحقیقت عباسیوں نے اس شہر کا استحصال شروع کر دیا تھا _ اس کی دولت اور وسائل چھین لیے گئے تھے _ ساتھ ہی امن و امان کی صورتحال بھی نہایت کمزور ہو چکی تھی _ بدویوں نے خانقاہوں پر حملے کرنا شروع کر دیے تھے جس کے نتیجے میں مغربیوں نے اس پر نظر رکھنا شروع کی اور اس سلسلے میں شہنشاہ شارلیمان نے ہارون الرشید کے ساتھ تحائف کا تبادلہ کیا اور بدلے میں یروشلم میں ایک چرچ, ایک مسافر خانہ اور ایک لائبریری بنانے کی اجازت حاصل کر لی _ اس کے بعد بتدریج عباسیوں کے اقتدار کو زوال آنا شروع ہوا اور پھر صورتحال قابو سے باہر ہوتی چلی گئی _ اس طرح یروشلم حکمرانوں کے برے سلوک کا شکار ہوتے ہوتے صلیبی جنگوں کے زمانے میں پہنچ گیا _ اور پھر جنگوں کا ایک نہایت ظالمانہ سلسلہ شروع ہوا اور یہ سلسلہ غالباً کسی نہ کسی صورت میں موجودہ دور میں بھی موجود ہے _ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اب مسلمان اپنے قبلہ اول اور مقدس مقام کو دیکھنے کا صرف خواب ہی رکھتے ہیں _ اپنوں کی نظر اندازی اور بے توجہی نے اس مقدس شہر کو غیروں کے حوالے کر دیا ہے۔
یروشلم کی تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ یہاں کچھ بھی پائیدار اور مستقل نہیں ہے _ اس شہر کے لوگوں نے کئی بار یروشلم کو لٹتے ہوئے دیکھا ہے _ مسلمانوں نے متعدد بار اپنے قبلہ اول کے بے حرمتی دیکھی ہے لیکن اب ضرورت بے رحمانہ اقدامات کی نہیں بلکہ رواداری اور برداشت کی ضرورت ہے _ باطل کے ناپاک ارادوں کو بغور سمجھ کر ان کے سامنے متحد ہو کر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تاکہ یہ مقدس شہر پھر سے بے حرمتی اور ظلم کا نشانہ نہ بن سکے۔