تحریر : علی عبداللہ ہندوستانی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں 22 سماجی تعلقات یعنی سوشل میڈیا ویب سائٹس کو بلاک کر دیا ہے جن میں مشہور زمانہ فیس بک, ٹویٹر اور وٹس ایپ بھی شامل ہیں _ حالیہ پرتشدد مظاہروں میں کمی لانے کی خاطر ہندو سرکار نے یہ انتہائی قدم اٹھایا ہے اور ان کا خیال ہے کہ ایک مہینے کی یہ سوشل میڈیا پر پابندی عوام کی حفاظت اور حالات پر قابو پانے کے لیے ناگزیر تھی کیونکہ کشمیری عوام نفرت انگیز مواد اور فوج کے ہاتھوں کشمیریوں پر مظالم کے فوٹو اور ویڈیوز کے ذریعے سوشل میڈیا کا منفی استعمال کر رہی تھی_ ہندوستانی سرکار کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کا منفی استعمال امن کی کوششوں میں رکاوٹ بن رہا ہے۔
جمعرات تک مقامی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی ان ویب سائٹس کو بلاک کرنے میں ناکام رہی تھی _ بھارت شنکر نگم جو کہ ٹیلیکام کمپنی سے وابستہ ہیں کے مطابق انجینئرز ابھی تک ان ویب سائٹس کو بلاک کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں لیکن فی الحال انہیں کامیابی نہیں مل سکی کیونکہ ایسا کرنے سے پورے ہمالیہ ریجن میں انٹرنیٹ کی فراہمی معطل ہو سکتی ہے _ جبکہ تھری جی اور فورجی موبائل سروس ایک ہفتے سے معطل ہے _ خطے میں اب صرف ٹو جی سروس کی فراہم کی جا رہی ہے جو کہ نہایت سست ہونے کی وجہ سے زیادہ مؤثر نہیں ہے _ سری نگر اور گرد و نواح کے لوگ دھڑا دھڑ ایسے سوفٹ وئیر اور ایپلیکیشنز اپنے سمارٹ فونز میں انسٹال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کے بارے خیال ہے کہ ان کے ذریعے بلاک سوشل میڈیا سروس بحال کی جاسکے گی۔
پہلے بھی مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی سرکار انٹرنیٹ سروس معطل کرتی رہی ہے لیکن یہ پہلی بار ہوا ہے کہ 22 اہم سوشل میڈیا ویب سائٹس پر پابندی لگا کر سختی سے اس پر عمل درآمد بھی کروایا جا رہا ہے _ اس کی وجہ غالباً وہ ویڈیوز اور فوٹوز ہیں جن میں فوج کو کشمیریوں پر تشدد کرتے دیکھا جا سکتا ہے _ اس غیر منصفانہ اقدام پر انڈیا کو مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے _ ایک بین الاقوامی صحافیوں کے حقوق کے گروپ نے حکام پر زور ڈالا ہے کہ وہ جلد از جلد اس فیصلے کو واپس لے کر سوشل میڈیا پر پابندی ہٹائیں _ اس تنظیم کے مطابق ہندوستان کے اس عمل سے نہ ہی امن قائم ہو گا اور نہ ہی قانون پر عمل درآمد _ایشیا پروگرام برائے جرنلسٹس سیفٹی کے کوارڈینیٹر کے مطابق اس قسم کی سوشل میڈیا پر پابندی واضح انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کی خلاف ورزی ہے جو انڈیا کھلے عام کر رہا ہے۔
کشمیری کئی سالوں سے بھارتی مظالم کے فوٹو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرتے آئے ہیں لیکن 9 ایپریل کے واقعات کے بعد سے ان فوٹوز کے نتیجے میں انڈیا مخالف پر تشدد مظاہروں مین اضافہ ہوا ہے _ سب سے زیادہ ردعمل اس ویڈیو کے نتیجے میں دیکھنے میں آیا جس میں انڈین فوجی ایک کشمیری فاروق احمد ڈار کو فوجی جیپ کے بمپر پر باندھ کر پورے گاؤں میں گھما رہے ہیں اور ساتھ ہی ایک فوجی کی آواز بھی سنی جا سکتی ہے جس میں وہ کہہ رہا ہے کہ ہر پتھر پھینکنے والے کے ساتھ یہی سلوک کیا جائے گا _ ایسے بدترین سلوک پر انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں تو خاموش ہیں ہی لیکن ساتھ ساتھ حکومت پاکستان کا بھی کوئی واضح رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔۔
برہان وانی کی شہادت کے بعد سے شروع ہونے والے مظاہروں میں دن بدن شدت آ رہی ہے اور بھارتی حکومت مختلف ہتھکنڈوں کے باوجود ابھی تک ان پر قابو پانے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے _ موبائل اور سوشل میڈیا پر پابندیوں سے یہ سلسلہ رکنے والا نہیں ہے لہذا بھارت کو اب مستقل مزاجی سے مسئلہ کشمیر کا کوئی مستقل حل تلاش کرنا ہو گا کیونکہ کشمیری یا تو مکمل آزادی چاہتے ہیں یا پھر پاکستان سے الحاق _ اس صورتحال میں بھارت اپنے تمام منفی ہتھکنڈوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کشمیریوں کی آواز کو دبانا چاہتا ہے لیکن حالیہ مظاہروں کی شدت اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندوستان کی کشمیر پر گرفت دن بدن کمزور پڑ رہی ہے۔
پاکستان کو بھی چاہیے کہ اس مسئلے پر اب مستقل مزاجی سے توجہ دے اور بے گناہ معصوم کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر آواز اٹھائے _ متعدد بار کشمیریوں کی جانب سے پاکستانی پرچم کا اٹھانا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کشمیری پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں لہٰذا پاکستانی حکومت ان کے لیے ٹھوس اقدامات کرے تاکہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی پر تشدد کاروائیاں بند ہو سکیں اور کشمیریوں کو ان کا حق حاصل ہو سکے۔