تحریر : منظور احمد فریدی اللہ جل شانہ کی لامحدود حمد وثناء ذات کبریا جناب محمد مصطفی ۖ پر درودوسلام کے نذرانے پیش کرنے کے بعد راقم نے کل اپنے علاقہ میں شیرپاکستان وقت کے جلال الدین محمد اکبر میاں محمد نواز شریف وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان اور ان کے حواریوں سیاسی بیر بلوں کا جلسہ دیکھا سنا اور موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں وقت کے وزیر اعظم کی جو تقریر سنی انہی چند جملوں سے زیر نظر مضمون ترتیب دیا ہے قارئین کرام کی میٹھی کڑوی آراء کا انتظار رہے گا کیونکہ میرے علم کو جلا بخشنے والے میرے قارئین ہی ہیں۔
ہمارے وزیر اعظم صاحب نے فرمایا کہ میں کسی کے کہنے پر استعفیٰ نہیں دونگا ۔میں کسی سے نہیں ڈرتا ۔مخالفین ٹانگیں کھینچ رہے ہیں۔لوڈشیڈنگ دینے والو سڑکیں بنانے کا خیال کیوں نہ آیا ہم نے پلیں بنائیں وغیرہ وغیرہ قارئین کرام ایک اسلامی جمہوری ریاست کے جمہوری حکمران کی یہ تقریر کچی پکی جماعت کے کسی بچے کے سبق جیسی لگتی ہے جانے جناب وزیر اعظم صاحب کے سپیچ رائٹر نے کس تناظر میں اسے لکھ کر تھما دیا اوپر سے جناب کے حواریوں نے اپنے اپنے راگ میں جو بھی کہا اس میں سے کچھ بھی ایسا نہیں جو خالصتا ملکی مفاد میں ہو عوامی مفاد میں ہو حکومت کسی بھی سیاسی پارٹی کی ہو جب کوئی وزیر اپنے عہدے کا حلف دیکر وزیر بن جائے تو وہ ملک کا وزیر ہوتا ہے مگر اس ریاست کی یہ بد بختی رہی ہے اور جانے کب تک رہے گی کہ یہاں کوئی میاں کا نوکر ہے تو کوئی بھٹو کا سپاہی عوام فاقوں مرے مگر بھٹو بھی زندہ ہے اور شیر بھی ہمارے وزیر اعظم صاحب کے تمام حواریوں نے اپنی اپنی وزارتوں کے فرائض منصبی کے بجائے وزیر اعظم کی کرسی کا دفاع کرنے کا وکالت نامہ دے چکے ہیں پریذائڈنگ آفیسر کے سامنے کلمہ سن لینے کے ڈر سے رشوتیں دینے والے بھی آخرت کی باتیں کررہے ہیں کالم کے آغاز میں بیر بل کا ذکر کیا گیا ہے۔
اکبری وزراء میں سے بیر بل کی دانشمندی نے اس کے کردار کو افسانوی سا بنا دیا ہے ایک قصہ بہت مشہور ہے کہ جلال الدین محمد اکبر رات کو بھیس بدل کر شہر میں گشت کیا کرتا تھا تاکہ وہ عوام میں اپنے متعلق رائے سے آگاہ رہے ایک رات وہ بیر بل کے ساتھ جارہا تھا کہ ایک حجام اپنی جھونپڑی میں بیٹھا حقہ پی رہا تھا اکبر نے بیر بل سے حکم دیا کہ اس حجام سے پوچھو کہ اکبر بادشاہ کی حکومت کیسی ہے بیر بل سوال کیا تو حجام نے کہا کہ بہت عادل سخی اور غریب پرور بادشاہ ہے اس کی حکومت میں امن ہی امن ہے موج ہی موج ہے بادشاہ سینہ پھلائے آگے چل دیا اورکئی دن تک بیر بل سے اپنی تعریف کے قصے سناتا رہا بیر بل تنگ آگیا اور کہا کہ آج پھر اس حجام سے ملنے چلیں پروگرام کے مطابق جب دونوں جھونپڑی کے قریب پہنچے اور سابقہ سوال دہرایا تو حجام نے بادشاہ کو غلیظ گالیاں دینا شروع کردیں اور اتنا تک کہہ دیا کہ اس سے برا اندھا بہرا اور جاہل بادشاہ میں پہلے نہیں دیکھا بادشاہ بہت ہی پشیمان ہوا اور بھاگم بھاگ اپنے محل پہنچا بیر بل کے سامنے سوالوں کے انبا ر لگا دیے بیر بل مسکراتا رہا اور پھر بتایا کہ عالم پناہ رعایا میں سے ہر شخص اپنی حالت کے مطابق دوسرے کو بھی خیال کرتا ہے پچھلی ملاقات پر حجام کے پاس ایک تھیلی اشرفیوں کی محفوظ تھی کل وہ تھیلی میں نے چوری کروالی ہے اب وہ پریشان ہے تو اسے ساری رعایا ہی پریشان نظر آرہی ہے مگر بادشاہ کو اپنے شہر سے آگے نکل کر سوچنا چاہیئے حالات دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے عالم پناہ ریاست حجام کی جھونپڑی پر ختم نہیں ہوجاتی اب ہمارے وزیر اعظم جب حواریوں سے باہر نکلیں گے ہی نہیں تو وہ اس بات سے کیسے باخبر ہونگے کہ ریاست کس جھونپڑی تک ہے۔
دوسرا قصہ چند چوروں کا ہے جو اس جلسہ کی تقریر سن کر مجھے یاد آیا بچپن میں ہم بزرگوں سے کہانیاں سناکرتے تھے مذہبی گھرانہ سے تعلق ہونے کی وجہ سے ہمارے بزرگ ہمیں کہانیاں بھی ایسی سنایا کرتے تھے جن سے ہماری اصلاح مقصود ہوتی تھی میرے ایک بزرگ جو ساری عمر ظاہر و باطن ایک کرنے کا درس دیتے رہے ہمیں ایسا سبق دیتے تھے کہ بیٹا ریاکاری کی عبادت سے عبادت نہ کرنا بہتر ہے وغیرہ وغیرہ ایک دن انہوں نے ایک قصہ ہمیں سنایا کہ وہ ان دنوں نظام مصطفی تحریک میں شامل تھے حکومت مخالف تقریر پر جیل جانا پڑا جیل میں قیدیوں سے سنا ہوا قصہ ہمیں سنایا ،،ایک قیدی اپنے ہانڈی وال قیدی کو اپنے خاندانی فن چوری کے قصیدے سنا رہا تھا فرط جذبات میں اپنے باپ کا ذکر کرتے کرتے رو پڑا اور کہا کہ اللہ بخشے باپ بہشتی نقب لگانے کے اتنے استاد تھے کہ بڑے بڑے نامی گرامی چور انکو جھک کر سلام کرتے تھے دیوار میں نقب لگانا ان کے بعد ختم ہوگیا ایک رات ابا بہشتی ایک مردود کے گھر کو نقب لگا رہے تھے دیوار اتنی چوڑی تھی کہ رات بیت گئی اور تہجد کا وقت ہوگیا بس ابا بہشتی کا آدھا اندر داخل ہوا تھا کہ اس کمینے شخص نے تہجد کی نماز کا سلام پھیرا اور ابا بہشتی کے سر میں ڈنڈا مارا جس سے ابا سیدھا بہشت میں جا پہنچا ہم نے مالک پر قتل کا مقدمہ کروایا ابا پر چوری ڈکیتی کے کئی مقدمات تھے مگر ہمارے مولوی اللہ دتہ کی ایک گواہی نے ابا بہشتی کو پاک کرکے اس کمینے شخص کو قاتل قرار دلوا دیا اور چوری کی اس واردات کو دشمنی کے قتل میں تبدیل کردیا مولوی نے بھری عدالت میں بیان دیا کہ ابا بہشتی صرف چند روز قبل اس کے ہاتھ پر چوری چکاری سے توبہ کرچکا تھا اور اب پانچوں وقت کا نمازی بلکہ تہجد گزار تھا یہ نقب اسے قتل کرکے بعد میں قتل کے مقدمہ سے بچنے کے لیے لگائی گئی ہے سالا اب بھی باپ بہشتی کے قتل کی سزا بھگت رہا ہے ایک چور نے سوال کیا کہ مولوی اللہ دتہ نے گواہی کیوں دی تھی تو چور نے کہا کہ مولوی کو ہر واردات سے ایک بکرا یا سو روپے نذرانہ ابا بہشتی دیا کرتے تھے اب تو مولوی نے بھی وہ گائوں چھوڑ دیا ہے بھرے مجمع میں مولوی اللہ دتہ نے اعلان کیا ہے کہ اس گائوں والے سب دوزخی ہیں کسی کو یقین نہ ہو تو جنت اور دوزخ کے درمیان صرف ایک کھڑکی ہوگی کھول کر دیکھ لینا میں اور میرے ماننے والے جنت میں ہونگے جن میں سے اس نے ابا بہشتی کا نام لیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مولوی کو کئی بار خواب میں مل چکا ہے اور جنت میں وہ حوروں کے ساتھ بہت خوش رہ رہا ہے ہم نے اپنے ابا حضور کا طریقہ نہیں چھوڑا اور اسے باقاعدہ نذرانہ دیتے ہیں۔
اب قارئین اگر میرے اس قصہ کو مریم نواز شریف کے اس بیان سے منسوب کرلیں کہ مجھے تو عمران خان کی آخرت کا فکر ہے یا ہمارے بجلی جیسے وزیر بجلی و پانی عابد شیر علی کے اس بیان کے ساتھ جوڑیں جس میں وہ فرماتے ہیں کہ عمران خان جھوٹ بولتے ہیں اور جھوٹے پر اللہ کی لعنت ہے موصوف عالم معلوم ہوتے ہیں میں کم علم بندہ انکے علم کو کیسے پہنچ سکتا ہے اس لیے قارئین میرے اس کالم کے کسی جملہ کو بھی وقت کے اکبر اور بیر بلوں سے نہ ہی جوڑیں تو مہربانی ہوگی والسلام اللہ ہم سب کا حا می و ناصر ہو اور اللہ ہمیں وہ ملک دشمن بندہ تلاش کرنے میں آسانی عطا فرمائے جس نے ملک کو اندھیروں میں دھکیلا ہے پچھلے تیس بتیس سالوں سے اقتدار میں رہنے والے شیر نے تو کل اوکاڑہ میں سرعام کہہ دیا ہے کہ لوڈشیڈنگ دینے والو پل کیوں نہ بنائے سڑک کیوں نہ بنائے تمہیں سمجھ آئی ہو یا نہ اللہ حافظ۔