تحریر : وقار انساء 1986 میں شکاگو میں مزدوروں کے اوقات مزدوری کا دورانیہ طویل ہونے پر جو احتجاج مزدوروں نے کیا اسں کے بعد یکم مئی عالمی طور پر لیبر ڈے کے نام سے منایا جانے لگا- یہ وہ شعور تھا جو اس وقت مزدوروں میں بیدار ہوا -اس کا احتجاج کا مقصد ہر شعبہ زندگی میں کام کرنے والوں کی طرح متعین اوقات میں اپنے کام کو سر انجام دینا تھا اور اس کے ساتھ ان کے حقوق کا تحفظ بھی – ھمارے ہاں بھی یہ دن ایک تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے ہر سال حکومتیں اور تنظیمیں زبانی طور پر رسما چند جملے بول کر چند ایفا نہ ہونے والے وعدے کر کے خبروں کی حد تک اس دن کی یاد دہرا لیتی ہیں اور درحقیقت اس دن کی یاد میں ہونے والی تعطیل ہی خوش کن احساس دیتی ہے- کیونکہ اس دن عام تعطیل ہوتی ہے سکول کالج دفاتر اور دیگر ادارے بند ہوتے ہیں اور عہدوں پر متمکن وہ سب افراد جو اپنے عہدے سے انصاف تو کرتے نہیں اس تعطیل کو منانے گھروں سے باہر نکل جاتے ہیں۔
گورنمنٹ اداروں میں کام کرنے والے اور سرکار سے مہنگائی کی بلند شرح کے پیش نظر تگڑی تنخواہ اور برائے نام کام کرنے والے تعطیل پر سکھ کا سانس لیتے نظر آتے ہیں – سکھ کا سانس لیتے نظر نہیں آتے تو وہی مزدور لوگ جو دیہاڑی لگا کر روز کا راشن گھر لے جاتے ہیں – جن کی مزدوری حقیقت میں ان کے خون پسینے کے بعد میسر آتی ہے -ھمارے ملک میں مستحق بھکاری کم اور پیشہ ور زیادہ ہیں جو ان محنت پیشہ اور حلال ذرائع سے کمانے والوں سے زیادہ کما لیتے ہیں کھانا پیسے مانگ کر لے لیتے ہین لیکن سفید پوش مزدور دن بھر کام کرنے کے بعد کہیں روکھی سوکھی کا انتظام کر پاتا ہے۔
آج بھی پاکستان کے چھوٹے شہروں میں سامان سے بھرے ریڑھے کو کھینچنے کا کام مزدورہی کرتا ہے دو پہیوں کا یہ ریڑھا سامان کی زیادتی کے سبب اتنا غیر متوازن ہوتا ہے کہ ان کے کھینچنے والے مزدوروں کو بھاگنا پڑتا ہے پسینیسے شرابور کپڑے اور بوجھ کی زیادتی سے ہلکان! اس مزور کو کہیں رک کر پانی پینے کی فرصت نہیں ہوتی اور نہ ہی سردیوں میں الصبح ٹھٹھرتے ہوئے کام پر جانے کی بجائے وہ گرم بستر میں لیٹ سکتا ہے – بیماری کی صورت میں بھی نہیں کیونکہ وہ اپنے خاندان کا کفیل ہے – سبزی منڈی فروٹ منڈی کے علاوہ تھوک اشیائے خوردونوش فروخت کرنے والی دکانوں پر یہ منظردیکھنے کو بکثرت ملتا ہے۔
یہی حال بھٹوں پرکام کرنے والی عورتوں اور مردوں کے ساتھ بچوں کا ہے جن سے ٹھیکے دار انسانیت سوز سلوک روا رکھتے ہیں-تیز جھلساتی دھوپ یا یخ بستہ سردیوں کے دن سارا دن وہ کام کرتے رہتے ہیں وڈیروں ھاں کام کرنے والے خواہ بچے ہوں یا بڑے مردوزن وڈیروں کو حق حاصل ہے کہ چھوٹی سی غلطی پر ان کی کھال کھینچ لیں ڈنڈوں سے ان کے ھاتھ پاں توڑ دیں یا استریوں سے ان کے جسم داغ دیں ان بے چاروں کی کوئی شنوائی نہیں اسی سبب یہ وڈیرے حاکم مطلق بنے ہوئے ہیں جن کے خلاف کسی کو بولنے کی مجال نہیں-خواہ کام ان کے گھر کا ہو یا کھیتوں کا انہیں سارا دن تانگے کے آگے جتے ہوئے گھوڑے کی طرح بھاگنا اور چابک کھانا ہے۔ لاتعداد ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں لیکن سزا یا باز پرس نہ ہونے کی بیخوفی ان واقعات میں روز افروں اضافے کا ہی باعث ہے ورکشاپ میں کام کرنے والے چھوٹے ہوں یا ڈھابے ریسٹورنٹ یا بڑے ہوٹلوں میں کام کرنے والے سب کے ساتھ ایسے سلوک کیا جاتاہے جیسے وہ گوشت پوشت سے بنے انسان نہیں بلکہ روبوٹ ہوں-کم اجرت اور زیادہ کام یہ غریب مزدور ہی کرتے ہیں۔
الصبح شہروں کے چوک میں مزدور دیہاڑی لگانے کے لئے اپنی کدال اور کچھ اور سامان کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں تاکہ کوئی دیہاڑی کے لئے ان کو ساتھ لے جائے گرمی کی دوپہریں جب ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں سے لوگ باہر نہیں نکلتے یہ موسم کے سردو گرم کی پرواہ کئے بغیر روثی ملنے کا انتظام ہونے تک کھڑے رہتے ہیں-یہ محنت کش کسی کے آگے ھاتھ نہیں پھیلاتے بلکہ محنت سے کما کر کھانے کو ترجیح دیتے ہیں اگر یہ دن مزدوروں کے حقوق کا ہے تو ان کے حقوق کا تحفظ کیوں نہیں ہے ؟ کیوں آج تک انسانیت سوز سلوک کرنے والے جاگیرداروں اور وڈیروں کے قانونی چارہ جوئی نہیں کی جاتی کیوں قانون خاموش رہتا ہے ؟ اور مجرم جرم کے بعد بھی کیفر کردار تک نہیں پہنچتا دندناتا پھرتا ہے۔
Labor Day in Pakistan
حقیقت میں ھمارے ملک کا قانون وہ مکڑی کا جالا ہے جس میں چھوٹے جانور ہی پھنستے ہیں اور بڑے اس کو توڑ کر نکل جاتے ہیں -یہ اندھا بہرہ قانون جہاں کسی بھوکے کو روٹی چرا کر کھانے پر سزا تو دی جا سکتی ہے لیکن بڑے بڑے جرم کے مرتکب اس کی دسترس سے باہر ہیں انسانی حقوق کی پاسداری کیوں نہیں کی جاتی ؟ کیوں انسانی حقوق کی تنظیمں بے بس ہوتی ہیں ؟ اور ذمہ داروں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاتی- بڑھتی مہنگائی کے سبب تنخواہوں میں اضافہ تنخواہ داروں کے لئے ہے تو سوچیئے کیا مزدور انسان نہیں اس کی اور اس کے خاندان کی ضروریات نہیں؟ دیگر ممالک میں تو مزدوروں سے ناروا سلوک نہیں کیا جاتا بلکہ مساوی حقوق ملتے ہیں تو کیا یہ ھماری حکومتوں کے لئے لمحہ فکریہ نہیں۔