تحریر : شہزاد حسین بھٹی یکم مئی مزدور ڈے کے حوالے سے ملک بھر میں رسمی تقریبات کا سلسلہ صبح سے شام تک جاری رہا اورنت نئی اور بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی رہیں۔ مختلف ٹی وی چینلز پر مزدور لیڈروں کو مدعو کرکے لیبر لاء کے حوالے سے پاکستان میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا جاتا رہا۔ اور دوسری طرف یکم مئی مزدور ڈے پر بھی مزدوروں کو چھٹی نہ ملی۔ خاص طور پر پرائیویٹ سیکڑ میں ملازمین کو ہدایت کی گئی کہ وہ ڈیوٹی پر ہر صورت حاضر ہوں۔ خاص طور پر انڈسٹریل ایریاز میں قائم فیکڑیاں مکمل طور پر کھلی رہیں تاہم کچھ مزدور تنظیموں نے مختلف پروگرام ترتیب دیئے وہ بھی میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کے علاوہ شاید کچھ ذاتی تشہیر سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ بعض پاکٹ یونینزنے سرکاری خرچے پر ایسے تقریبات منعقد کیں جن میں موجودہ حکومت کے مزدورں کے حق میں زبانی جمع خرچ منصوبو ں کی تشہیر کے علاوہ کچھ نہ تھا۔
آج کا مزدور جس طر ح ظلم و بربریت کا شکار ہے شاید پہلے کبھی نہ تھا اس کی بنیادی وجہ صنعت کار طبقہ کی حکمرانی ہے جو شروع دن سے مزدور دشمن پالیسوں پر گامزن ہے اور وہ کبھی بھی نہیں چاہتا کہ پاکستان کے مزدور اپنے حقوق کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں ۔مزدورں کو منتشرکرنے کے لیے بعض کاغذی مزدور یونینز کا سہارا لیا جاتا ہے جو بلند و بانگ دعوے کرکے مزدورں کو گمراہ کرتی ہیں اور حقیقی مزدور یونین کو پس پشت ڈالا جاتا ہے اور انہیں ہمیشہ زیر عتاب رکھ کر ان کی راہوں میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے ساماں پیداکیے جاتے ہیں۔
عوامی لیبر یونین تربیلا کے جنرل سیکرٹری اسلم عادل ایک ایسے مزدور راہنما ہیں جنہوں نے اپنی زندگی مزدوروں کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ کئی بار انہیں پابند سلاسل بھی کیاگیا اوران پر جھوٹے مقدمات بھی درج کیئے گئے تاہم اسلم عادل مزدورں کے خلاف ظلم و بربریت کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح آج بھی مزدور کے حق کے لیے کھڑا ہے لیکن بدقسمتی سے حکومتی ایوانوں سے ان کو دور رکھا جاتارہا ہے۔ سرکاری تقریبات میں انکو مدعو تک نہیں کیا جاتا۔ جسکی بنیادی وجہ ان کا ہر دور میں مزدور دشمن حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کرنا وہ جرم ہے جو کبھی خوشامدی حکمرانوں کو اک نظر نہیں بھاتا۔یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی مزدوروں کے حقیقی وارث ذولفقار علی بھٹو کی تصویر لگا کر مزدوروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں ہو سکتی کہ پاکستان کی تاریخ میں ذولفقار علی بھٹو شہید ہی وہ واحد لیڈر تھے جنہوں نے مزدوروں کو ایک آواز دی ۔ انہیں اپنی حقیقی طاقت سے روشنا س کیا۔ اور آج جو مزدور ہر سو پاکستان میں اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھا رہے ہیں یہ سب انہی کے مرہون منت ہے۔ گو کہ اسلم عادل کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیںلیکن جس نے بھی مزدور کے لیے کام کیا۔ اسلم عادل نے اس سیاسی شخصیت کو اپنا ہیرو مانا۔
“یوم مئی کے حوالے سے اسلم عادل نے صوابی میں مزدوروں کے ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تمام حکمرانوں کو للکارا اور انکی مزدور دشمن پالیسوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آج تمام سیاسی جماعتوں کے اندر سرمایہ دار اور صنعت کار طبقہ گھس چکا ہے جو صرف اور صرف اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے سیاست کی بیساکھی استعمال کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے اندر لیبر ونگ صرف اور صرف نمائشی طور پر بنا رکھے ہیں جنکا مزدور کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج ڈمی مزدور یونین بھی مزدورں کا استحصال کرکے مزدور دشمن حکمرانوں کو درپردہ تقویت دے رہی ہیں۔مزدور طبقہ ہر طرف منشر نظر آتا ہے۔ جبکہ مزدور ایک پلیٹ فارم پراکھٹے نہیں ہوتے اسوقت تک پاکستان میں مزدور دشمن پالیسیاں جاری اور لیبر لاء کی دھجیاںاسی طرح اُڑائی جاتی رہیں گی۔انہوںنے کہا کہ وقت کی ضرورت ہے کہ مزدور ایسی سیاسی جماعتوںکو سپورٹ کریں جو مزدور کو ان کا جائز حق دلانے میں اہم کردار اداکریں تاکہ ملک سے مزدور دشمن پالیسوں کا خاتمہ ہو سکے” بے شک اسلم عادل مزدورں کے ایک حقیقی راہنما ہیں جنہوںنے ہردور میں مزدور کے لیے آواز اُٹھائی۔ ایسے مزدور رہنما ہی ہمارے ملک کا ایک اثاثہ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا مشن مزدور کی خدمت کو بنا رکھا ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک میں مزدور کو ان کا حقیقی اور جائز مقام عطا فرمائے کیونکہ مادہ پرستی کے اس دور میںمزدورکے حقوق کو سلب کرنے کے لیے نت نئے حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ملک بھر میں لیبر ڈائریکٹرزاپنی تجوریا ں بھرنے کے علاوہ مزدور کے لیے کوئی خاطر خواہ خدمت سرانجام دینے سے قاصر ہیں کیونکہ سیاسی بنیادوںپر تعینات لیبر آفیسرزسیاسی جماعتوں کی تو خدمت کر رہے ہیں لیکن مزدور طبقہ ان سے آج بھی نالاں ہے کیونکہ حکومت کے اعلان کردہ شیڈول کے مطابق تمام صوبوںمیں فیکڑیز اور مختلف پرائیویٹ سیکڑز حتکہ پڑول پمپ اور دکان مالکان مزدور کوتنخواہیں نہیں دے رہے بلکہ مہنگائی کے اس دور میں چھ ہزار سے آٹھ ہزار روپے ماہوار تنخواہ دے کر لیبر لاء کی دھجیاں اُڑا رہے ہیں مگر ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔