تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی صدیوں سے ہندوستانی سرزمین بت پرستی ‘جہالت ‘گمراہی اور ذات پات کی تقسیم میں غرق چلی آ رہی تھی‘ اونچی ذات کے ہندو نیچی ذات کے ہندوئوں کو جانوروں سے بھی بدتر اور اچھوت خیال کرتے تھے‘ نیچی ذات کے ہندو شودر آبادیوں سے دور کیڑوں مکوڑوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور تھے، اگر کسی نیچی ذات کے ہندو سے کوئی غلطی یا گستاخی ہو جاتی تو اُسے درد ناک عبرتناک سزائیں دے کر مار دیا جاتا ‘ہزاروں سالوں سے انسان ذلت‘ گمراہی اور جہالت کے اندھیروں میں سسک سسک کر زندگی گزار رہا تھا‘ نسل در نسل غلامی انسان کی ہڈیوں تک اُتر چکی تھی، خوف اور تو ہم پر ستی مذہب کا روپ دھار چکی تھی جگہ جگہ صنم خانے کھلے ہوئے تھے، ہر طاقتور چمکتی چیز کو خدا کا اوتار سمجھا جاتا ‘ہندوئوں کی تو ہم پرستی اس حد تک بڑھ چکی تھی، کہ ایک خدا کی بجائے کروڑوں خدا بنا رکھے تھے، جن کے سامنے دن رات ما تھے رگڑتے اور پھر خدائے بزرگ و برتر کو اہل ہندوستان پر رحم آیا تو تاریخ تصوف کے بہت بڑے روشن سورج کا یہاں طلوع ہوا‘ آپ کے کردار اور ایمان افروز تعلیمات سے ہندوستان کا چپہ چپہ ایمان کی روشنی سے جگمگانے لگا‘ آپ کو اہل دنیا خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، عطائے رسول‘ نائب رسول‘ خواجہ خواجگان‘ شاہ اجمیر کے نام سے جانتی ہے۔
آپ نے ایمان کے وہ چراغ روشن کئے کہ صدیوں کی جہالت‘ گمراہی اور ذات پات فضائوں میں تحلیل ہوگئی‘ آپ کے خلیفہ حضرت قطب الدین بختیار کا کی‘ بابا فرید الدین گنج شکر‘حضرت نظام الدین اولیائ‘ صابر کلیر‘ امیر خسرو، سید نصیر الدین‘ چراغ دہلوی ایک چراغ سے دوسرا چراغ اِس شان سے روشن ہوا کہ ہزاروں سالوں کی تاریکی ایمان کی روشنی میں بدلتی گئی، تاریخ تصوف کے کسی اور سلسلے کو یہ اعزاز حاصل نہیں کہ ایک چراغ سے بڑھ کر دوسرا چراغ روشن ہوتا چلا گیا، اور پھر آسمان تصوف پر چشتی سلسلے کا ایک ایسا چاند روشن ہوا کہ برہمن‘پجاری جوگی قشقہ و زنا رتوڑ کر خاک پر اپنی پیشانیاں رگڑ رگڑ کر خدا کی کبریائی اور سرتاج الانبیاء ۖ کی رسالت کی گواہی دینے لگے۔
اشارہ غیبی کے تحت دہلی سے ایک درویش کامل بت پرستی کے گڑھ ”کا ٹھیا وار” پہنچتا ہے جو اُن دنوں بت پرستی میں غرق تھا جہاں پر کافر اور مشرک صدیوں سے رہتے آرہے تھے، درویش نے آکر مقامی باشندوں سے پو چھا تمہا را مقدس مقام کہاں ہے مقامی ہندو درویش کے اِس سوا ل سے گھبرا سے گئے، تم مسلمان ہو تم وہاں پر کیوں جانا چاہتے ہو تمہیں وہاں کیا کام ہے تمہارا ہمارے مقدس مقام سے کیا تعلق ہے درویش نے دلنواز تبسم اور شفیق لہجے میں کہا، میں آپ لوگوں کی عبادت کا طریقہ دیکھنا چاہتا ہوں مقامی لوگوں نے بتایا ”گرنا تھ” پہاڑ پر ہماری سب سے بڑی مقدس عبادت گاہ ہے جو شہر سے کچھ فاصلے پر واقع ہے، یہ جان کر درویش وقت اُس طرف چل پڑا تو مقامی باشندے بولے ادھر جانے کی غلطی کبھی نہ کرنا، ورنہ ہلاک کر دئیے جائو گے درویش کے چہرے پر جلال کا رنگ آگیا، اور بولا کس میں ہمت ہے جو مجھے مارے گا، مقامی باشندے بولے وہاں پر تو عام حالات میں کسی کی ہمت نہیں ہوتی آجکل تو حالات ویسے ہی خراب ہیں ہندو آپس میں لڑ رہے ہیں نفرت کی آگ اِس درجہ بڑھ گئی ہے، کہ ہندو ہندو کو مارنے پر تلا ہوا ہے تو غیر مذہب کیسے بچے گا، درویش نے بے نیازی سے دیکھا اور پوچھا کیسی لڑائی کیسی جنگ تو لوگوں نے بتایا” کاٹھیا وار” میں صدیوں سے دو مذہبی فرقے آباد ہیں جین مت اور وشنومت دونوں فرقے صدیوں سے پرامن زندگی گزار رہے تھے لیکن آج ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں درویش یہ کہتا ہوا تیزی سے پہاڑی کی طرف روانہ ہوا کہ اب تو میرا وہاں جانا بہت ہی ضروری ہے مقامی باشندوں نے بہت ڈرانے کی کوشش کی لیکن چشت نگر کا کامل درویش تیزی سے ادھر جارہا تھا مقامی باشندے حیرت سے ایسے انسان کو دیکھ رہے تھے، جسے کسی کا بھی خوف نہیں تھا، اور پھر جب یہ درویش” تیرتھ” کی حدود میں پہنچا تو واقعی خوفناک منظر اُس کی آنکھوں کے سامنے تھا، جین مت اور وشنو مت کے پجاری خونی ہتھیار تلواریں نیزے بھالے پکڑے ایک دوسرے کے سامنے کھڑے خونی نظروں سے دیکھ رہے تھے، اور کسی بھی لمحے زمین انسانی خون سے رنگین ہونی والی تھی۔
دونوں فرقوں کے پجاریوں نے جب ایک مسلمان درویش کو اپنی طرف آتے دیکھا، تو حیران رہ گئے، کہ غیر مذہب کے ماننے والا اُن کے مقدس مقام تک کیوں اور کیسے آگیا، کیا یہ گورنمنٹ کا جاسوس تو نہیں ہے ابھی وہ انہیں سوچوں میں غرق تھے، کہ درویش اُن کے قریب آگیا پیکر جرات درویش کی پر جلال آواز گونجی آپ لوگوں کا جھگڑا کیا ہے، آپ کیوں ایک دوسرے کی گردنیں اتارنے پر تیار ہیں دونوں فرقوں کے پجاری حیرت اور غصے سے کامل درویش کو دیکھ رہے تھے، کہ اِس کی اتنی جرا ت، آخر بولے تم ہوتے کون ہو ہمارے درمیان آنے والے پجاریوں کے ہاتھ ہتھیاروں پر مضبوط ہوگئے، تلواریں بلند ہو گئیں، یہ ہمارا ذاتی جھگڑا ہے اور اِسے ہم اپنی مرضی سے طے کریں گے درویش نے شفیق لہجے میں بولا بے شک یہ آپ لوگوں کا ذاتی جھگڑا ہے، مگر میں آپ لوگوں کو آپس میں لڑتا ہوا نہیں دیکھ سکتا انسانی خون بہت قیمتی ہوتا ہے، تم لوگ کیوں ایک دوسرے کے خون کو بہانے پر تیار ہو فقیر چشت نے قہر آلودہ نظروں سے ایک دوسرے کو گھورتے ہوئے پجاریوں کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن پجاری بضد تھے، کہ آج خون تو بہے گا آج گردنیں تو کٹیں گیں، آج جھوٹ ختم ہوگا اور سچ قائم ہو کر رہے گا، آج جو زندہ بچیں گے، وہی سچے ہوں گے، آج جھوٹے نیست و نابود ہو نگے، درویش کی پر جلال آواز پھر گونجی یہ تو کوئی طریقہ نہیں کے جو مرے گا، وہ جھوٹا اور جو زندہ رہے گا وہ سچا، یہ تو کوئی معیار یا انصاف نہ ہوا، درویش نے ”تیرتھ ” کے پجاریوں کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن دونوں فرقوں کی سمجھ میں نہ آسکی، تو فقیر کی بارعب آواز گونجی آج میں فیصلہ کروں گا، کہ اِس کائنات میں سچا کون ہے اور جھوٹا کون ہے بت پرست حیرت سے مسلمان درویش کی جرات اور بے باکی دیکھ رہے تھے، جو اُن کے درمیان انہیں للکار رہا تھا، درویش وقت کی پر جلال اور آواز کے سحر سے بت پرستی کے پجاری سہم سے گئے تھے، کچھ دیر پہلے پجاری جو گستاخانہ چیخیں مار رہے تھے، اب حیرت سے درویش کو دیکھ رہے تھے، چشت نگر کا درویش کچھ دیر تو خاموشی سے ہجوم کو دیکھتا رہا، پھر فقیر بے نیاز کی پر جلال آواز سے فضائوں کا ارتعاش ٹوٹنے لگا، مکمل سکوت میں درویش کی آواز گونج رہی تھی، درویش پر جلال نے وشنومت کے بڑے پجاری کو مخاطب کیا پجاری نے جیسے ہی پیکر جلال کی آنکھوں میں دیکھا تو نظروں کی تاب نہ لا سکا ہتھیار زمین پر گر پڑے درویش کی ایک نظر کام کر گئی، پجاری درویش کے پائوں میں گر پڑا اور چیخ چیخ کر کہنے لگا، آپ سچے ہم جھوٹے پجاریوں پر لرزا طاری ہو گیا سارے پجاری زمین پر سجدہ ریز ہو گئے۔
درویش کی پر جلال آواز پھر گونجی جین مت کے بڑے پجاری کو مخاطب کیا اور پوچھا اب تم بتائو کون سچا کون جھوٹا ہے، درویش وقت کی نگاہ یہاں بھی کام کرگئی پجاری اپنے چیلوں کے ساتھ زمین پر پیشانی رگڑنے لگا، اور بار بار ایک ہی بات کہہ رہا تھا آپ سچے ہم جھوٹے آپ حق پرست ہم جھوٹ پر’ درویش کی ایک نظر نے کایا ہی پلٹ دی، جو ایک دوسرے کے خون کے پیا سے تھے وہ ایک نظر کے شکار ہوگئے ‘مہندو پنڈتوں نے مرد کامل پر جلال درویش کی نظر میں کیا دیکھا، کہ آبائو اجداد کی ساری کفرانہ تعلیمات بھول گئے اُس کے پیچھے سر جھکا کر چلنے لگے ہاتھوں سے قشقے کھرچ ڈالے، گلوں میں زنار پھاڑ ڈالے‘ جن فضائوں میں ناقوس کی آواز گو نجتی تھی، اب اللہ اکبر کی صدائیں آنے لگیں بوڑھے آسمان کو وہ منظر یاد آگیا، جب تاریخ انسان کے ذہین ترین انسان اپنی شاعری ادیبا نہ صلاحیت نثر نگاری اور ساری فصاحت بلاغت بھو ل گئے، اور پھر وہ مصرہ بولا جو صدیوں کے بعد نکھرتا جارہا ہے۔” چھاپ تلک سب چھین لی رے موسے نیناں ملائی کے”۔(تیری نظروہ نظر ہے کہ تو نے ایک ہی نظر میں میرے ماتھے سے کفر کی ساری نشانیاں کھرچ ڈالیں)، جس درویش کے سامنے بت پرست مسلمان ہوئے وہ سلسلہ چشت کے روشن چراغ مشہور بزرگ حضر ت سید محمد گیسو دراز تھے۔