تحریر : عماد ظفر ذرائع ابلاغ کو اپنے حق میں استعمال کر کے لوگوں کے نظریات و خیالات کو تابع کرنے کی رسم بے حد پرانی اور قدیم ہے. 19ویں صدی کے اوائل میں اخبارات اور بعد ازاں ریڈیو کو اس مقصد کیلئے استعمال کیا جاتا رہا. اس کے بعد ٹیلی ویثژن چینلوں اور ڈیجیٹل میڈیا کی کامیابی نے ان دونوں شعبہ جات کو بھی نظریاتی اور مفاداتی جنگ کے بیچ اہکی اہم ہتھیار کے طور پر روشناس کروا دیا. یوں انٹرنیٹ اور ٹی وی چینلز کی وجہ سے انسانوں کی سوچوں یا رائے عامہ کو کسی بھی خاص نظریے کے تابع کرنا بے حد آسان ہوتا چلا گیا.
پاکستان میں اکیسویں صدی کے اوائل میں نجی ٹی وی چینلوں کو کام کرنے کے اجازت نامے دئیے گئے .یہ نجی چینلز اپنے آغاز ہی سے عوام میں مقبول ہو گئے کیوں کہ روایتی سرکاری ٹی وی پاکستان ٹیلی ویژن کے برعکس ان ٹی وی چینلوں نے سماجی،سیاسی، مزہبی اور دفاعی ڈھانچوں پر بنیادی سوالات اٹھائے. سرکاری پالیسیوں پر تنقید کی اور یوں عوام کو محسوس شروع ہوا کہ یہ ٹی وی چینل دراصل ان کی آواز ہیں. نجی ایف ایم ریڈیو چینلوں نے بھی غیر ملکی موسیقی اور سماجی و سیاسی شعبہ جات سے لیکر علوم و فنون پر زمانہ جدید سے مطابقت رکھتے ہوئے پروگرام پیش کرنے کے باعث بے انتہا مقبولیت حاصل کی.
الیکٹرانک میڈیا کی پذیرائی مقبولیت اور طاقت کو دیکھتے ہوئے اکثر صنعت کاروں جاگیرداروں اور اشرافیہ نے اس شعبے کی جانب رخ کیا جس کا بنیادی مقصد اپنے اپنے معاشی مفادات کا تحفظ اور طاقت کے کھیل میں اپنا حصہ مانگنا تھا. ایک طرح سے ٹی وی چینل کا لائنسس ایک ایسا ہتھیار بن گیا جس کی موجودگی میں ٹی وی چینل کے مالکین یا سرکردہ افراد کسی بھی قسم کی قانونی گرفت سے ماورا ہوتے چلے گئے. دوسری جانب سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں نے بھی الیکٹرانک میڈیا کو اپنے حق میں استعمال کرنا شروع کر دیا.2007 کی کامیاب وکلا تحریک جس کے نتیجے میں پرویز شرف کے آمرانہ دور اقتدار کا بھی خاتمہ ہوا تھا اس تحریک کے نتائج نے جہاں وطن عزیز کے معتدل مزاج اور لبرل طبقات کو میڈیا پر سپیس فراہم کیا وہیں مقتدر قوتوں کو اس امر کا ادراک بھی کروایا کہ موجودہ دور میں لڑائیاں بیانیوں کے دم پر لڑی اور جیتی جاتی ہیں اور اب بیانیے الیکٹرانک میڈیا کے دم پر بنائے اور مضبوط کیئے جاتے ہیں.اور یوں پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی سکرینوں اور سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے ایک جنگ کا آغاز ہو گیا.سیاسی قوتوں نے الیکٹرانک میڈیا کو اپنے حق اور بیانیے کے تسلط کی خاطر ہر جائز و ناجائز حربہ آزماتے ہوئے استعمال کیا ،جبکہ دفاعی و مذہبی ایسٹیبلیشمنٹ نے اس پلیٹ فارم کو اپنے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا.
طاقت کے حصول اور تسلط و اجارہ داری برقرار رکھنے کی اس لڑائی نے الیکٹرانک میڈیا بالخصوص ٹی وی چینلوں میں پیرا شوٹ قسم کے اینکرز اور مالشی قسم کے صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی کھیپ تیار ڈالی. صحافتی قابلیت سے نابلد دانشوارانہ استدلال سے محروم اور تجزیہ و تخلیق کی صلاحیتوں سے عاری اس کھیپ نے ٹی وی چینلوں پر سنسنی، زرد صحافت اور تخلیق و تخیل اور تحقیق سے عاری بے ہنگم قسم کی نشریات کی بنیاد ڈالی. ٹی چینلوں کے نیوز بلیٹن اس ضمن میں منہ بولتا ثبوت ہیں جہاں تخلیقی مواد کی کمی اوریجنل نیوز اور مواد کی عدم دستیابی کے باعث کسی بھی سیاستدان یا جرنیل کا چائےکا کپ پینا بھی بریکنگ نیوز کہلاتا ہے.تحزیاتی یا تحقیقاتی پروگراموں کے نام پر بے معنی الزامات، من گھڑت افواہیں اور جھوٹ پر مبنی دلیل کے منافی پروگرامز اور ٹاک شوز کے نام پر ایک تعمیری یا مدلل مکالمے یا مباحث کے بجائے مہمانوں کو بلا کر انہیں آپس میں لڑوانا یا پھر ان پر پوائنٹ سکورنگ کرنا اس کا واضح ثبوت ہے. دوسری جانب روایتی تنگ نظر اردو صحافیوں اور ریٹائرڈ بیوروکریٹس جو کہ زیادہ تر سیاسی و غیر سیاسی طاقتوں کی پشت پناہی پر ٹی وی چینلوں میں بطور اینکرز یا اہم ذمہ دارہوں پر تعینات کیئے گئے ان لوگوں نے اس پلیٹ فارم کو بھی کفر توہین اور غداری کی اسناد بانٹنے کی فیکٹریاں بنا کر رکھ دیا. اوریا مقبول جان سے لیکر شاہد مسعود اور مبشر لقمان سے لیکر عامر لیاقت سمیت تمام حضرات مخالفین کو یا تو توہین مذہب کا مرتکب ٹھہرانے لگ گئے یا سیکیورٹی رسک قرار دیتے ہوئے غداری کے فتوے صادر شروع کرنے ہو گئے.
مقتدر قوتوں کی پشت پناہی اور بے دریغ پیسے اور طاقت کے استعمال نے ٹی وی سکرینوں پر سے زیادہ تر ترقی پسند خیالات کے حامل اینکرز تجزیہ نگاروں اور صحافیوں کو ایک محدود حد تک مقید کر دیا. زیادہ تر ترقی پسند یا لبرل افراد کو یا تو ائیر ٹائم ہی نہیں دیا گیا یا انہیں ڈرا دھمکا کر اور حملے کروا کر ٹی وی سکرینوں سے دور رکھا گیا.یوں آبجیکٹو جرنلزم یا اعلی صحافی اقدار کی جگہ ٹیلیویژن چینل ضیاالحق دور کی بنائی گئی قومی سلامتی اور توہین مزہب کی خود ساختہ پالیسیوں اور بیانیوں کو تقویت دینے اور پھیلانے میں ایک موثر ہتھیار ثابت ہونا شروع ہو گئے. لیکن دوسری جانب تمام تر پابندیوں دباؤ اور مالی و جانی نقصان کے خطرات کے باوجود طلعت حسین،نصرت جاوید، رضا رومی اور وسعت الہ خان جیسے صحافی و دانشور اپنی صدا بلند کرتے رہے.اپنے عمدہ تجزیات اور سوالات کی بدولت یہ ایسٹیبلیشمنٹ کو کھٹکنے لگے کیونکہ ایسٹبلیشمنٹ کبھی بھی اپنے اختیارات یا طریقہ کار و کردار سے متعلق سوالات یا تنقید سننے کی عادی نہیں تھی. بہرحال اسی اثنا میں اچانک بول نیوز کے نام سے ملک کا مہنگا ترین ٹی وی نیٹ ورک متعارف کروایا گیا. اس ٹی وی کے فرنٹ مین یا مالک کے طور پر شعیب شیخ کا چہرہ سامنے آیا. شعیب چیخ ایگزیکٹ نامی ایک انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنی کا مالک تھا جو پاکستان کی چند بڑی آئی ٹی کمپنیوں میں شمار ہوتی تھی. اپنے ملازمین کو بے انتہااور پرکشش تنخواہ و مراعات دینے کے باعث اس کمپنی میں کام کرنا ہر نوجوان کی خواہش تھی.
بول ٹی وی نے بھی لائنسس حاصل کرتے ہی ایگزیکٹ کی مانند انتہائی پرکشش مراعات صحافیوں کو پیش کرنا شروع کیں اور کچھ ہی عرصے میں ملکی صحافت کے تقریبا تمام بڑے نام بول کی اس کشتی میں سوار ہو گئے. ایگزیکٹ کمپنی کے بارے میں نامور بین الاقوامی صحافی ڈیکلن والش نے جعلی ڈگریاں بیچنے کا سکینڈل منظر عام پر لایا اور شعیب شیخ کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دھر لیا. قریب سال سے زیادہ قانون نافذ کرنے والے ادارواں کی تحویل میں رہنے کے بعد مئی 2015 میں شعیب شیخ ضمانت پر رہا ہوا اور اس نے فورا بول ٹی وی کی نشریات کا آغاز کر دیا.توقعات کے عین مطابق بول ٹی وی نے نشریات کے پہلے دن ہی سے تمام مخالفین پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی.قوم پرستی، نرگسیت اور مزہب کی آڑ لیتے ہوئے بول ٹی وی کے پلیٹ فارم سے میڈیا گروپس صحافیوں اور ترقی پسند طبقہ فکر کے خلاف ایک جامع اور ٹھوس مہم کا آغاز کیا گیا. جمہوریت کے خلاف منظم پراپیگینڈے کو مسلسل نشر کیا گیا. 3 مئی 2015 کو پیمرا نے بول ٹی وی کا لائسنس یہ کہہ کر معطل کر دیا کہ اس چینل کے ڈائریکٹرز کو وزارت داخلہ سے سیکیورٹی کلیئرنس نہیں ملی. تادم تحریر بول ٹی وی کا لائسنس معطل ہے اور نشریات بند ہیں. وہ ٹی وی چینل جو مخالفین پر کیچڑ اچھالنے کیلئے انہیں وطن کیلئے سیکیورٹی رسک قرار دیتا تھا دراصل خود اپنے ہی ہتھیار کا شکار ہو گیا.
بول ٹی وی کی یہ کہانی لیکن داستو وسکی کے ناول “کرائم اینڈ پنشمنٹ” کی مانند بالکل سیدھی یا گناہ اور سزا کے تصور کے گرد نہیں گھومتی. بلکہ یہ کہانی دراصل مخلتلف قوتوں اور میڈیا کے گٹھ جوڑ کی جانب ایک واضح اشارہ ہے. شعیب شیخ اور اس ٹی وی چینل کی کہانی میں کئی ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات آج تلک حک طلب ہیں یا بذات کود اپنا جواب آپ ہیں. بول ٹی وی کیلئے اس قدر وافر مقدار میں سرمایہ شعیب شیخ کو فراہم کرنے والے ہاتھ کس کے تھے؟ شعیب شیخ اکیلا اسـقدر بڑا اور مہنگا ترین ٹیلی ویژن نیٹ ورک چلانے کی مالی حیثیت نہیں رکھتا تھا. یہ بات درست ہے کہ ایگزیکٹ نامی کمپنی سے وہ بے حد منافع کماتا رھا لیکن وہ منافع بھی اس قدر مہنگے اور پر تعیش نیٹ ورک کے قیام کیلئے ناکافی تھا.دوسرا سوال یہ ہے کہ ایگزیکٹ کمپنی کی فحش ویب سائٹس چلانے سے متعلق اطلاعات باخبر اور سماجی حلقوں میں بول ٹی وی کے آنے سے بہت پہلے کی تھیں. جعلی ڈگریوں کے کاروبار کا انکشاف البتہ سب کیلئے نیا تھا. لیکن اس امر کو تسلیم کرنا ناممکن ہے کہ ایگزیکٹ کے فحش ویب سائٹس یا دیگر غیر قانونی دھندوں سے متعلق خبریں سیکیورٹی ایجنسییوں یا مقتدر قوتوں کے پاس موجود نہیں تھیں.وہ ادارے جو میڈیا کے مالکان کی سونے سمگلنگ کیس کی فائلوں سے لیکر ٹیکس چوری تک کے معاملات کی فائلیں اپنے پاس دبا کر رکھتے ہیں کیسے ایگزیکٹ اور شعیب شیخ کے کالے دھندوں سے بےخبر رہے؟ ڈیکلن والش نامی صحافی کو ایگزیکٹ اور شعیب شیخ کے متعلق لیڈ کس نے فراہم کی ؟پاکستان میں اس کے اہم افراد اور ثبوتوں تک رسائی کن سیاسی قوتوں یا میڈیا گروپس نے کروائی اس کا جوان بھی حل طلب ہے. شعیب شیخ کو دوران حراست وی آئی پی پروٹوکول کن قوتوں کی بدولت ملتا رہا؟ قانون کی گرفت سے بچ نکلنے میں اس کی پشت پناہی کس قوت نے کی؟ ایف آئی کے پراسیکیوٹر زاہد جمیل کے گھر پر گرنیڈ حملہ کس نے کروایا. زاہد جمیل نے ایک ایسے وقت میں جب کیس کا فیصلہ بالکل قریب تھا ایف آئی کی معاونت سے انکار کرتے ہوئے کیس سے علحدگی کیوں اختیار کی؟ جس کا فائدہ شعیب شیخ کو ہوا. ان تمام سوالات کے جوابات شاید خود سوالات میں ہی پوشیدہ ہیں اور اگر ان پوشیدہ نقطوں کو یکجا کر کے دیکھا جائے تو ایک بڑی اور واضح تصویر سامنے آ جاتی ہے.
بول ٹی وی کا یہ کیس دراصل ریاست کی مخلتلف قوتوں کا اپنے اپنے اختیارات اور تسلط کی خاطر الیکٹرانک میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے رائے عامہ پر اپنا اپنا ایجنڈہ مسلط کرنے اور میڈیا گروپس کا اپنے اپنے مفادات کے حصول کیلئے رائے عامہ کو فریقین کے حق میں استوار کرنے کی ایک واضح مثال اور جیتا جاگتا ثبوت ہے.اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے تمام ٹی وی چینلوں اور میڈیا گروپس کو فریقین کی طاقت و اختیارات کی جنگ میں فریق بننے کے بجائے اور اپنے اپنے مفادات کے حصول کے بجائے صحافت کے بنیادی اور کلیدی اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی اشد ضرورت ہے. الیکٹرانک میڈیا کا بنیادی فرض اور مقصد غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کرتے ہوئے معلومات و حقائق کو درست نداز تک رائے عامہ تک پہنچانے کا ہوتا ہے نا کہ کسی بھی سیاسی یا غیر سیاسی فریق کا آلہ کار بن کر حقائق کو تڑوڑ مڑوڑ کر کسی فریق یا بینانیے کے حق میں پیش کرنے کا . دانشوارانہ و صحافتی بددیانتی بھی ایک طرح سے دہشت گردی کےجرم کے کلزمرے میں آتی ہے کیونکہ ٹی وی سکرینوں سے رائے عامہ کوشدت پسندی ہا قومی نرگسیت میں مبتلا کرنا یا سیاسی کھییل میں بطور چارے کے استعمال کرنا نا صرف حقائق کی رسائی تک کے عوام کے بنیادی حق کے منافی ہوتا ہے بلکہ معاشرے میں شدت پسندانہ ماینڈ سیٹ کے فروغ میں بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے. طاقت و اختیارات کے اس کھیل میں فریقین کا آلہ کار بن کر اگر آج بول ٹی وی بند ہو سکتا ہے تو کل کو کسی اور بڑے میڈیا گروپ کے ٹی وی چینل کی باری بھی آ سکتی ہے.ستم ظریفی دیکھئے جو بول ٹی وی کل تک مخالفین کو وطن کیلیے سیکیورٹی رسک قرار دیتا تھا خود آج سیکیورٹی کلیئرنس نہ مل پانے کے باعث بند پڑا ہے. جسے دیکھ کر وہ مصرعہ یاد آ جاتاہے کہ “لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا.