تحریر : وقار انساء ھمیشہ سے سجنا سنورنا صنف نازک سے ہی منسوب ہے- یہ الگ بات ہے کہ دور جدید میں مرد حضرات بھی بناو سنگھار میں ان سے پیچھے نہیں- ہر دور میں وقت کے تقاضوں کے مطابق زیبائش اور آرائش کی مصنوعات دستیاب رہیں- زیورات اور ملبوسات بھی وقت کے مطابق تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور اس کے مطابق ہی پہناوے کو ترجیح دی جاتی ہے رنگا رنگ ملبوسات تبدیلی کے ساتھ فیشن کا حصہ بنتے ہیں تو اچھا بھی لگتا ہے کیونکہ کسی بھی چیز کی یکسانیت بوریت کا سبب بنتی ہے- آجکل فیشن ڈیزائنر کے ڈیزائن کئے ملبوسات کا دور دورہ ہے اسی لئے بوتیک کی بہتات ہے یہ ملبوسات بوتیک کی زینت بنتے ہیں اس طرح یہ کاروبار اپنے بام عروج پر ہے۔
ان ڈیزائنر کے ملبوسات اور شوبز سے وابستہ لوگوں کے پہناوے نے شوشل اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے دوام پایا-مگر تہذیب اور اسلامی اقدار زوال پذیر ہوئیں- جس کا سبب یہ کاروبار بنا جو درحقیقت مغربی ڈیزائنر کے ملبوسات اور ان کی طرز زندگی سے متاثر ہوکرڈیزائن کیا جاتا ہے ایک وقت تھا کہ پی ٹی وی کی نیوز کاسٹر سر پر دوپٹہ رکھتی تھیں بے شک وہ ایک پٹی کی صورت میں کیوں نہ ہو اور ڈراموں میں بھی لباس اتنیو اہیات نہیں ہوتے تھے اب تو ڈراموں میں اس پٹی نما دوپٹے کو جو سر سے گلے میں آگیا تھا اتار کر پھینک دیا گیا آستینیں تو کافی عرصہ سے قصہ پارینہ بن چکیں – آگے پیچھے سے گہرے گلے اور باریک اور مختصر لبا س جسم کو ڈھانپنے کے بجائے فیشن کے نام پرکھلی بے حیائی کی ترغیب کا موجب بننے لگا ہے۔
نوجوان نسل نے قمیض کو کندھوں سے نیچے اور ناف سے اوپرکر دیا جس سے گہرے گلے پہننے سے بھی نجات پالی گئی-ایوارڑ کی تقریب میں ان ڈیزائنر کے نیم برہنہ ملبوسات کی تشہیر اداکارائیں کرتی نظر آتی ہیں جو ایک آدھ ڈرامے کے بعد ہی بالی وڈ کی فلموں میں ان کے طریقے کے جدید اور مختصر لباس کے ساتھ ان کے اداکاروں کے مقابل قابل اعتراض سین فلمبند کروانے کوقابل فخر اور اپنی کامیابی سمجھتی ہیں۔
ھمارے ملک میں بھی مغربی تہذیب کے طریقہ کار سے مر و زن کا ملتے وقت گلیملنا منہ چومنا عام بات بن گئی ہے جس کی دستبرد سے ھمارے ٹی وی ڈرامے اور پروگرام بھی محفوظ نہیں رہے جو اگلی نسلوں کو تباہی کے دھانے پرلا کھڑا کر رہے ہیں۔
افسوس کی بات ہے کہ مختصر اور نیم برہنہ لباس کو کیوں کامیابی کی ضمانت سمجھ لیا گیا ہے ؟پہلے لباس اس قدر مختصر نہ پہنے جاتے تھے اور اچھا لباس زیب تن کرنے والیاں کامیاب بھی تھیں- عمر بڑھتی ہے تو لباس کو مزید باوقار ہونا چاہیے تاکہ دیکھنے میں اچھا لگے-مگر یہاں تو گنگا الٹی بہتی ہے بڑھتی عمرعہد رفتہ کو آواز دیتی نظر آتی ہے۔
Actress Dresses
ستم بالائے ستم جب عمریں پچاس پچپن سے تجاوز کر جاتی ہیں تو مصنوعی روپ رنگ اور ایسے لباس کوزیب تن کر کے ڈھلتی عمر کو عہد شباب بنانے کی سرتوڑ کوشش کی جاتی ہے – بہت افسوس ہوا ٹی وی کی ایک معروف اور ورسٹائل اداکارہ کا لباس دیکھ کر جو اب نواسیوں نواسوں والی ہیں سب ہی اداکارائیں اس عمر میں کچھ ایسے ہی عہد شباب واپس لانے کی متمنی نظر آتی ہیں لیکن یہ اداکارہ اپنی خاص پہچان رکھتی ہے ان کا کام اور نام ہے پھر انہیں کیا ضرورت پڑی ایسے واہیات لباس کی کہ جس کو لباس کہا ہی نہیں جا سکتا؟ ھمارے مذھب نے تو جسم کو ڈھانپنے کا حکم دیا ہے اور لباس کا مقصد بھی یہی ہے- بے لباس تو جانور ہیں اشرف المخلوقات انسان تو نہیں! اللہ شعور عطا کرے اور بیٹیوں بہنوں کو دیدہ بینا دے تاکہ وہ ان کی تقلید کے بجائے اسلامی اقدار اور شعار کی تقلید کریں۔