تحریر: محمد عرفان چودھری وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے رواں برس نئے منصوبے شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جو کہ بلا شبہ خوش آئند ہے مگر وزیر اعلیٰ کے ان منصوبوں پر عوام کو چند تحفظات بھی ہیں جیسے کہ اُنہوں نے اعلان کیا ہے کہ بے روزگار نوجوانوں کو ییلو، بلیک کے بعد اب اورنج کیب سکیم کے تحت ایک لاکھ ٹیکسیاں دی جائیں گی جس سے بڑھتی ہوئی بے روزگاری پر قابو پایا جا سکے گا یقیناََ ایک اچھی کاوش ہے کہ وزیر اعلیٰ بے روزگاروں کے متعلق سوچتے ہیں مگر وزیر اعلیٰ کیا یہ جانتے ہیں کہ ماضی میں دی گئی ٹیکسیاں بے روزگاروں کو ہی ملی ہیں؟ ذرائع کے مطابق 1992-93 میں میاں نواز شریف کے دور میں 35000 پیلی ٹیکسیاں سکیم کے تحت دی گئیں جن کی خوب بندر بانٹ ہوئی اور سیاسی اثر و رسوخ کی بدولت بجائے بے روزگاروں کو دینے کے اپنے قریبی لوگوں میں بانٹ دی گئیں، اسی طرح روزگار سکیم کے تحت دی گئی ٹیکسیاں اور کیری ڈبے بے روزگار نوجوانوں تک پہنچنے کی بجائے کھاتے پیتے لوگوں کے کھاتے میں ڈال دی گئیں جس سے بے روزگار نوجوان مستفید نہیں ہو سکا اس لئے وزیر اعلیٰ سے گزارش ہے کہ اس بار اورنج کیب سکیم شروع کرنے سے پہلے عوام میں پائے جانے والے تحفظات کا اذالہ کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اورنج کیب صرف بے روزگار نوجوانوں کو ملے تا کہ حقیقی طور پر بے روزگار افراد اس سکیم سے مستفید ہوں نا کہ دوسرے لوگ ماضی کی طرح بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہیں اور وزیر اعلیٰ کی گنگا میلی ہو تی رہے۔
پنجاب حکومت نے اینٹوں کے بھٹوں سے چائلڈ لیبر کے خاتمے کے تحت تقریباََ پچاسی ہزار بچوں کو نجات دلوا کر سکولوں میں داخلہ دلوایا اور اُن کو ماہانہ وظیفہ بھی دیا جا رہا ہے مگر وزیر اعلیٰ شائد بھول گئے ہیں کہ پنجاب میں کروائی گئی ا سپیشل آڈٹ رپورٹ جو کہ ستمبر 2016 سے مارچ2017 تک جاری ر ہی اُس رپورٹ کی رُو سے پنجاب کے علاقے لاہور ریجن میں بچوں سے مزدوری لینے کے حوالے سے 87 کیسز جبکہ شیخوپورہ 169 ، گوجرانوالہ 309 ، راوالپنڈی221 ، فیصل آباد 739 ، سرگودھا62 ، ملتان 1010 ، ساہیوال 284 ، ڈی جی خان 303 اور بہاولپور ریجن میں 454 کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ بہت سے کیسز ایسے ہیں جن کا اندراج نہیں کیا گیااس لئے وزیر اعلیٰ پنجاب کو اس پر مزید سختی کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ملک سے یقینی طور پر چائلڈ لیبر کا خاتمہ ممکن ہو اور مستقبل کے معمار ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔ پنجاب حکومت نے سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت لاہور میں سڑکیں کھودنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس کے تحت لاہور کے مختلف علاقوں میں تقریباََ آٹھ ہزار جدید کیمرے نصب کئے جائیں گے اور اس پروجیکٹ کو عنقریب دوسرے شہروں تک پہنچایا جائے گا سیف سٹی پروجیکٹ کی لاگت 12 ارب روپے رکھی گئی ہے اور دوسرے پروجیکٹ کی طرح وزیر اعلیٰ پنجاب کی یہ بھی ایک اچھی کاوش ہے جس کی بدولت لوگوں کے مال اور اُن کی زندگی کو بڑی حد تک تحفظ حاصل ہوگا مگر کیا وزیر اعلیٰ یہ بتا سکتے ہیں کہ لاہور میں ہونے والی ڈکیتیوں اور راہزنی کی واردتوں جن کی سی سی ٹی وی فوٹیج مختلف ذرائع سے پنجاب حکومت کو موصول ہوئی ہیں اُن فوٹیج کے ذریعے کتنے ڈاکوئوں و قاتلوں کو پکڑا جا سکا ہے؟ ذرائع کے مطابق سال 2016 میں صرف لاہور میں4507 ڈکیتی کی وارداتیں ہوئیں جبکہ 440 افراد کو قتل کر دیا گیا اور798 افراد قاتلانہ حملے میں محفوظ رہے ، 7556چوری کی وارداتیں ہوئیں جبکہ 528 موٹر سائیکلیں چھین لی گئیں جبکہ 5930 چوری کر لی گئیں اندازے کے مطابق 2015 کی نسبت 2016 میں جرائم کی مختلف وارداتوں میں% 34 اضافہ ہوا ہے جو کہ رواں سال میں بڑھتا جا رہا ہے اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ پنجاب حکومت کے عوام کے مال و جان کے تحفظ کے لئے لگائے جانے والے کیمرے کس حد تک جرائم پر قابو پاتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کہتے ہیں کہ زمین ہم سے محبت کا تقاضا کرتی ہے اور پانی، پہاڑ، جنگلات، ہریالی اور صحرا کو اصل روح کے ساتھ قائم رکھنا ہی زمین سے محبت ہے تو جناب شہباز شریف صاحب عوام آپ سے سوال کرتی ہے کہ پنجاب جو کہ پانچ دریائوں کے نام سے جانا جاتا ہے اس کے دریا متواتر خشک ہوتے جا رہے ہیں اور لاہور کی راوی میں موجود پانی کی جگہ گندگی کے ڈھیڑ دن رات آپ کی وزارت کو منہ چڑھا رہے ہیں کہ کر لو جو کر سکتے ہو میں اب راوی کو بہنے نہیں دوں گا تو جناب کیا ان گندگی کے ڈھیڑوں کو استعمال میں لا کر بجلی پیدا نہیں کر سکتے جس سے عوام لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے بھی نکل جائے گی ، کیا راوی میں گرنے والے گندے نالوں کا رُخ کسی اور جانب نہیں موڑا جا سکتا تا کہ پھر سے راوی اپنے عروج کے مطابق بہہ سکے تا کہ راوی کے پانی سے ملک کی فصلیں سیراب ہو سکیں ، لاہور کے مضافات میں لہلہاتی فصلیں رہائشی سکیموں کی بدولت کاٹی جا رہی ہیں جس سے لاہور اور دوسروے شہروں کی ہریالی ختم ہوتی جا رہی ہے کیا آپ بجائے اس کے کہ لہلہاتی فصلوں کو تباہ و برباد کیا جائے نئے شہر آباد کرنے کے احکامات کیوں نہیں صادر فرماتے تا کہ شہر میں پہلے سے موجود لوگوں کو بہترین روزگار، صحت، تفریح اور سکون کے مواقع میسر آ سکیں بجائے اس کے کہ ایک ہی شہر کو مچھلی منڈی بنا دیا جائے اور لوگ تنگ و تاریگ گلیوں تک محدود ہو کر رہ جائیںجس سے کسی کو بھی بہترین علاج و معالجے کی سہولت میسرنا ہو سکے۔
شہباز شریف صاحب زمینی کٹائو کی بدولت جنگلات ختم ہوتے جا رہے ہیں پنجاب جو کہ زرعی صوبے کے نام سے جانا جاتا تھا آپ کی ناقص پالیسیوں کی بدولت جنگلوں اور فصلوں سے محروم ہوتا جا رہا ہے چھانگا مانگا کا جنگل جو کہ پنجاب کا واحد مصنوعی جنگل ہے اس کے چار ہزار ایکڑ رقبے میں سے تقریباََ تین ہزار ایکڑ کا رقبہ ٹمبر مافیا اورسیاسی جنگلیوں کی نظر ہو چکا ہے جنہوں نے فاریسٹ ملازمین کی ملی بھگت سے قیمتی لکڑی کو چوری کر لیا ہے اوراب چھانگا مانگا کا جنگل میدان کا منظر پیش کر رہا ہے اس پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
صحرا کے گندمی لوگ صحرا کا خوبصورت چہرہ ہیں مگر آپ کی عدم توجہ کی بدولت وہاں کے مکین دوسرے شہروں کا رُخ کرنے پر مجبور ہیں جن کی بنیادی وجہ صحت عامہ کی کمی، تعلیم کا فقدان، بے روزگاری میں ہو شربا اضافہ اور سب سے بڑھ کر پانی کی عدم دستیابی جو کہ ازل سے صحر ائوں کی ضرورت رہا ہے اور رپورٹ کے مطابق تقریباََ ایک ہزار کنویں خشک ہو چکے ہیں اور متعدد لوگ پانی کی کمی کی وجہ سے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اگر آپ کے نزدیک صحرا زمین کا خوبصورت حصہ ہیں تو اس خوب صورت حصے کو بچانے کے لئے فی الفور بڑے پیمانے پر پانی کا انتظام کیا جائے، نہروں کے رُخ چولستان کی جانب موڑے جائیں، نئے کنویں کھدوائے جائیں تا کہ زمینی خوب صورتی قائم رہے نا کہ سورج کی تپش سے خوب صورت چہرے مسخ ہو جائیں۔ جناب وزیر اعلیٰ صاحب آپ سعودی حکومت کے اشتراک سے لاہور میں پانچ سو بستروں پر مشتمل ہسپتال بنانے جا رہے ہیں جو کہ آپ کے پنجاب ہیلتھ کیئر پروگرام کا حصہ ہے اس ہسپتال سے عوام کو طبی سہولتیں میسر ہوں گی مگر جناب عوام آپ سے پوچھتی ہے کہ کیا لوگ صرف لاہور میں بیمار ہوتے ہیں دوسرے شہر کے باسی کوئی خلائی مخلوق ہیں جو کہ ڈینگی، ملیریا، یرقان، کینسر، ہارٹ اٹیک، برین ہیمبرج یا لقوہ اور دوسری بیماریوں سے متاثر نہیں ہوتے کیا۔
دوسرے شہروں کے لوگ حادثات کا شکار نہیں ہوتے کیا اُن کو علاج معالجے کی ضرورت پیش نہیں آتی اس لئے آپ سے گزارش ہے کہ لاہور کے علاوہ دوسرے بھی گائوں و شہر ہیں جن کو جدید علاج کی ضرورت ہے جو آپ جیسے اشرفیہ کی طرح بیرون ممالک تو دور ایک شہر سے دوسرے شہر میں جانے سے قاصر ہیں کیا ہی خوب ہو کہ اُن کے لئے اُن کے شہر میں جدید ہسپتال بنائے جائیں تا کہ وہ روز بروز کی بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے مزید تنگ نا ہوں اُن کو جدید اور فوراََ علاج کی سہولتیں میسر ہوں تا کہ اُن کے پیارے راستے میں ہی دم نا توڑ جائیں آپ کے اس اقدام سے لاہور کے ہسپتالوں میں نا صرف مریضوں کا رش کم ہوگابلکہ دوسرے شہروں کے لوگوں کو کم خرچ میں بہترین علاج کی سہولتیں اُن کے شہر میں ہی مل جائیں گی اس کے علاوہ بجائے اس کے کہ آپ لاہور میں مزید ہسپتال بنائیں پہلے سے موجود ہسپتالوں کی حالت زار پر توجہ دیں کیونکہ ایک ایک بستر پر تین سے لے کر پانچ پانچ مریض تک لٹائے جاتے ہیں حتیٰ کہ لوگ کھڑے کھڑے ہی ڈرپ لگوا لیتے ہیں جو کہ میڈیکل کی رو سے قطعََ درست نہیں ۔،خادم پنجاب آپ سے گزارش ہے کہ آپ کے نظریات بے شک اچھے ہوں مگر جب تک اُن نظریات کو حقیقی طور پر عملی جامہ نا پہنایا جائے اُن نظریات کا کوئی فائدہ نہیں ہے اس لئے صرف لاہور تک محدود رہنے کی بجائے دوسرے شہروں پر بھی اپنی توجہ دیں تا کہ آپ کا خادم پنجاب کہلوانا ثابت ہو جائے نا کہ آپ صرف تخت لاہور کے بادشاہ کہلائیں۔