تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا مسلمان کا ایمان ہے اللہ سے ملاقات کے لئے ” موت ” اور سب سے اچھی اور مثالی موت ” شہید کی موت ” شہید کی موت کو قوم کی حیات کہا جاتا ہے۔ جو لوگ اللہ اور اللہ کے رسول کریم ۖ کی احکامات کی روشنی میں اللہ کی رضا کے لئے لڑتے لڑتے مارے جائیں ” وہ مرتے نہیں بلکہ زندہ ہوتے ہیں ” یہ میرا یا آپ کا بیان و خیال نہیں بلکہ خالق مالک ، رازق ِ حقیقی کا فرمان عالی شان ہے۔ !
کشمیر میں انڈیا نے معصۖم لوگوں پر قیامت برپا کی ہوئی ہے۔ انسانیت سوز واقعات سے بھارتی افوج کے مظالم دیکھ کر چنگیز خان اور ہلاکو خان کی روح بھی تڑپ رہی ہے۔گزشہ ہفتہ بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ اے ایس دلت نے مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورت حال کو بدترین قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ 1990 میں جب مسلح جدوجہد عروج پر تھی تو اْس وقت بھی حالات ایسے نہیں تھے۔ایک انٹرویومیں اے ایس دلت نے اس سوال پر کہ کیا حالیہ غیر مسلح جدوجہد موجودہ حکومت کے دور میں خراب سے خراب تر ہوئی ہے کا جواب ہاں میں دیا۔انہوںنے کہاہاں 1990 کے مقابلے میں اب صورت حال خراب ہورہی ہے۔ ماحول کے حوالے سے یہ حالات خراب ہیں کیونکہ اس میں نوجوان شریک ہیں اور کشمیری نوجوان قابو سے باہر ہوچکے ہیں۔
انھوں نے کہا وہاں نا امیدی کی فضا پائی جاتی ہے اور وہ مرنے سے نہیں ڈرتے۔ گاو?ں والے، طلبا اور یہاں تک کہ لڑکیاں بھی گلیوں پر آرہی ہیں ایسا ماضی میں کبھی نہیں ہوا۔سابق انٹیلی جنس سربراہ کے مطابق 1990 میں مسلح عسکریت پسندی اور شدت پسندی تھی جو آج نہیں ہے اس وقت بہت زیادہ ہتھیار تھے اور عسکریت پسندی زیادہ تھی تاہم آج جب نوجوان اور لڑکیاں پتھروں سے لڑتے ہیں تو صورت حال بدترین ہے۔انھوں نے کہا مختصر طور پر اگر کہا جائے کہ کشمیر کا مستقبل کیا ہے تویہ اچھا دکھائی نہیں دے رہا، انہوںنے کہاکہ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ بھارت، کشمیر کے حوالے سے پاکستان سے بات کرنے سے خوفزدہ کیوں ہے انھیں وضاحت کرنی ہے۔ انہوں نے کہا میں اعتراف کرتا ہوں کہ مودی جی نے اچھا آغاز کیا تھا انھوں نے پاکستان جاکر ہم سب کو حیران کردیا تھا اور اس کے بعد کیا ہوا، مشکل بات یہ ہے کہ مذاکرات کے لیے پاکستان ایک آسان ریاست نہیں ہے۔انھوں نے کہا پاکستان سے مذاکرات کے حوالے سے بھارت کا موجودہ موقف کہ مذاکرات اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے بھی بے معنی ہے۔انہوںنے کہاکہ چیزیں کئی سطح پر پیش آرہی ہیں ہمیں یہاں اور وہاں کے واقعات سے بالاتر ہوکر مذاکرات کرنے ہوں گے۔ مذاکرات خارجہ سیکرٹری اور وزیراعظم کی سطح پر ہونا ضروری ہیں، مودی جی تھیٹر کے استاد ہیں اس لیے وہ ایسا کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہامعذرت کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ نواز شریف بھی کاریگر ہیں اس طرح یہ برابری کا معاملہ ہے تاہم کشمیریوں کے بجائے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنا آسان ترین ہے۔ انھوں نے کہا بھارتی حکومت برہان وانی کے قتل کے بعد کے حالات سے نمٹنے میں ناکام رہی جی بالکل بلکہ مجھے یہ کہنے دیجیے کہ ہم نے پاکستان کو وادی میں دوبارہ قدم جمانے کی دعوت دی تھی۔
کشمیر کے مسلہ پر بھارت پاگل ہو گیا ہے ، کون سا ظلم ہے جو معصوم کشمیریوں کاحق دبانے کی خاطر انڈیا فورسسز نے نہیں کیا ۔گزشتہ روز بھارتی مظالم کا پردہ چاک کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں میر واعظ عمر فاروق کی سربراہی میں قائم حریت فورم نے کہا ہے کہ وقت آچکا ہے کہ بھارت مقبوضہ علاقے کی سنگین صورت حال کو تسلیم کرتے ہوئے دہائیوں پرانے تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے راہیں تلاش کرے۔ کشمیر میڈیاسروس کے مطابق یہ بات فورم کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق کی صدرات میں سرینگر میں منعقدہ ایک اجلاس میں کہی گئی۔
اجلاس میں جنوبی ایشیا میں رہائش پذیر ڈیڑھ ارب سے زائد انسانی زندگیوں کے تحفظ کے لیے مسئلہ کشمیر کے فوری حل کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اجلاس میں پروفیسر عبدالغنی بٹ، محمد مصدق عادل، مسرور عباس انصاری، مختار احمد وازہ، عبدالمجید بانڈے اور دیگر شریک تھے۔ اجلاس کے شرکا نے بھارتی فورسز کی طرف سے مقبوضہ علاقے میں جاری بے گناہ لوگوں کے قتل اور گرفتاریوں کی شدید مذمت کی۔جموںوکشمیر ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی اور کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اپنے بیانات میں بھارتی فوجیوں کی طرف سے ضلع بارہمولہ کے علاقے سوپور میںبھارتی فوجیوں کی طرف سے ایک ہی خاندان کی خواتین کی وحشیانہ مارپیٹ کی شدید مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ قابض بھارتی فورسز نہتے کشمیریوں خاص طورپر خواتین کو ظلم و ستم کا نشانہ بنا کر اپنی بوکھلاہٹ کو ظاہر کر رہی ہیں۔
ایم بی بی ایس کی ایک طالبہ سمیت ایک ہی خاندان کی چار خواتین نے تشددزدہ چہروں کے سا تھ پریس کالونی سرینگر میںصحافیوںکو بتایا کہ گزشتہ روز بھارتی فوجیوںنے انکے گھر میں زبردستی داخل ہو کر انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ ادھرکشمیر میڈیا سروس کی طرف سے آزادی صحافت کے عالمی دن کے موقع پر جاری کئے گئے اعداوشمار کے مطابق مقبوضہ کشمیر دنیا کے ان خطرناک ترین مقامات میں شامل ہے جہاں پریس اور میڈیا سے وابستہ افراد انتہائی مشکل حالات میں اپنے پیشہ وارانہ فرائض انجام دے رہے ہیں۔
1989ء سے اب تک اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران 10صحافیوںکوقتل کیا جاچکا ہے۔رپورٹ میں مذید کہاگیا ہے کہ مقبوضہ کشمیرمیں صحافیوں کو بھارتی فوجیوں کی طرف سے بدترین سلوک،اغوائ، قاتلانہ حملوںاور جان سے ماردینے کی دھمکیاں دیناروزکا معمول بن چکا ہے۔ دریںاثناء وادی کشمیرمیں پہلے ہی ایک ماہ کیلئے موبائیل انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر قدغن عائد کر دی گئی ہے۔تمام انٹرنیٹ سروس پروائیڈرز کو فیس بک، ٹویٹر، سنیپ چاٹ،وٹس اپ اور یوٹیوب سمیت سماجی رابطے کی 22ویب سائیٹس تک صارفین کی رسائی بلاک کرنے کے احکامات جاری کئے گئے ہیں۔نیویارک میں قائم صحافیوں کے تحفظ کے آزاد ادارے کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے بھارت سے مقبوضہ کشمیر میں ایک ماہ کیلئے انٹرنیٹ سروسز پر عائد پابندی کو فوری طورپر ختم کرنے کامطالبہ کیاہے بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ نے مقبوضہ کشمیر کے حالیہ بحران کو بد ترین قرار دیا ہے،اے ایس دولت کا کہنا تھا 1900 کی مسلح جدوجہد میں ایسی صورت حال نہیں تھی۔بھارتی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے ‘را’ کے سابق سربراہ اے ایس دولت نے کہا کہ حالیہ غیر مسلح جدوجہد کی صورت حال اس دور حکو مت میں خراب ہوئی ہے۔ان کا کہنا تھا، ‘ہاں 1990 کے مقابلے میں اب صورت حال خراب ہورہی ہے، کیونکہ اس میں نوجوان شریک ہیں اور کشمیری نوجوان بے قابو ہو چکے ہیں۔انھوں نے کہا ‘وہاں نا امیدی کی فضا پائی جاتی ہے اور وہ نوجوان مرنے سے نہیں ڈرتے ہیں۔
سابق را سربراہ کا کہنا تھا کہ 1990 میں مسلح عسکریت پسندی اور شدت پسندی تھی جو آج نہیں ہے، ‘ا±س وقت بہت زیادہ ہتھیار تھے اور عسکریت پسندی زیادہ تھی لیکن آج جب نوجوان اور لڑکیاں پتھروں سے لڑتے ہیں تو صورت حال بدترین ہے،ان اسکول کی لڑکیاں اور خواتین پتھراو¿ کے لیے نکل آتی ہیں۔ اے ایس دولت کا کہنا تھا کہ میں اعتراف کرتا ہوں کہ مودی جی نے پاکستان جاکر ہم سب کو حیران کردیا تھا اور اس کے بعد کیا ہوا، مشکل بات یہ ہے کہ مذاکرات کے لیے پاکستان ایک آسان ریاست ہرگز نہیں ہے،اور بھارت کا یہ موقف کہ مذکرات اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے یہ بے معانی ہے۔
کشمیر کی آزادی اب زیادہ دور نہیں یہ جو بھارتی ایجنسیاں ، کشمیر میں خواتین ، طالبات اور معصوم بچوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بنا رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم کشمیریوں کو نشان عبرت بنا رہے ہیں ، الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر پابندی، انٹرنیٹ پر پابندی ، سوشل میڈیا پر پابندی کا صرف ایک ہی مقصد ہے ظلم کے نت نئے حربے ، شیرخواروں کو ماؤں کے سامنے چیرنا پھاڑتا، نابالغ لڑکیوں سے اجتماعی زیادتی،عروتوں اور مردوں کے برہنہ کر کے بے حرمتی ، اور نازک حصوں کو کاٹنا۔۔۔ اس سب کے باوجود بھی ” کشمیریوں کے حوصلے ” پست نہیں کر سکا بلکہ صا بات تو یہ ہے کہ انڈیا مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے ”جزبہ آزادی ” کو دبا نہیں سکا بلکہ بھارتی دانشوروں نے سوشل میڈیا پر پابندی کے باوجود بھی کشمیریوں کے حوصلے پست نہیں کر سکا۔۔۔۔ اب انڈیا نے ” بھارت کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچانے کے لئے کشمیریوں کو آزادی دینے کا فیصلہ کر لیا ہے ، وقت اور ثالثی کا تعین کرنا ہے۔