تحریر : ایم پی خان پاکستان کا دور افتارہ علاقہ بونیر، جو پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے۔سوات، مردان، صوابی، ملاکنڈ ایجنسی اور شانگلہ کے پہاڑوں کی بیچ میں پڑی یہ وادی کئی لحاظ سے انفرادیت کی حامل ہے۔ چونکہ سردست ہمارا موضوع بونیر کی جغرافیائی، تاریخی یا ثقافتی اہمیت کو اجاگر کرنا نہیں بلکہ بونیر سے تعلق رکھنے والے نوجوان طاہر علی اور ہندوستانی خاتون ڈاکٹر عظمیٰ کی پریم کہانی کی حقیقت کو واضح کرنا ہے۔
وادی بونیر کے اکثرنوجوان ملائشیاء میں مقیم ہیں۔یہاں گذشتہ تیس چالیس سال سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ جوبچہ بالغ ہوجاتاہے اوروہ تعلیم یاپیشہ ورانہ مہارت حاصل کرنے میں کماحقہ کامیابی حاصل نہیں کرتا تووالدین اسے ملائشیابھیج دیتے ہیں۔ چونکہ ہماراتعلق اسے خطہ زمین سے ہے اوربونیرکے عوام کاملائشیا کے ساتھ قریبی تعلق کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ عرصہ قبل ملائشیا کاسفیربونیر آیاتھا تو اپنی محبت کااظہارکرتے ہوئے اس نے بونیرکو منی ملائشیاء کہا تھا۔
طاہرعلی ، جوکہ بونیرسے تعلق رکھتاہے اورایک عرصے سے ملائشیا میں مقیم ہے۔اس نے کوئی اعلیٰ تعلیم بھی حاصل نہیں کی ہے اورنہ کوئی سلبرٹی یامشہور نوجوان ہے۔مبینہ طورپر ملائشیا میں قیام کے دوران ڈاکٹر عظمیٰ سے انکے تعلقات بنے۔ڈاکٹرعظمیٰ کون ہے ااوراسکی اصلیت کیاہے ، یہ امرابھی تک تفتیش کی مرہون منت ہے۔تاہم اتنامعلوم ہواہے کہ وہ ایک کاروباری سوچ رکھنے والی خاتون ہیں۔ڈاکٹری کے متعلق کچھ حقائق ابھی تک منظرعام پرنہیں آئے کہ وہ کس قسم کی ڈاکٹر ہے۔
ملائشیاج انے سے قبل وہ ہندوستان میں ایک بوتیک چلاتی تھی ۔انکی شادی ہوچکی تھی اورایک بچی، جس کی عمر تقریباً پانچ سال ہے، زندہ موجودہے جبکہ اسکی پہلی شادی ختم ہوچکی تھی۔پھراس نے بوتیک بند کرکے ملائشیاچلی گئی ، جہاں اسکو اپنے خوابوں کاشہزادہ طاہرعلی کی شکل میں ملااوراس نے طاہرعلی کے ساتھ زندگی بھرساتھ نبھانے کافیصلہ کرلیا۔ ملائشیادنیاکے خوبصورت ترین ممالک میں سے ہے۔وہاں ہرطرف عیش ونشاط کے مناظرہوتے ہیں۔خوشی ، عیش ، شادمانی مسرت اورسرور کا یہ ماحول انسان کے قلب ونظرپربھی رومانیت کے اثرات چھوڑ دیتا ہے۔
طاہر علی اورڈاکٹرعظمیٰ ایک دوسرے کی محبت میں ڈوبتے چلے جاتے تھے ، یہاں تک کہ دونوں کاآخری فیصلہ زبان ، رنگ اورنسل کی حدودسے نکل کرہندوستان اورپاکستان کے درمیان لائن آف کنٹرول کو بھی پار کرنا تھا۔ہندوستانی دوشیزائوں اورخواتین کی پاکستانی نوجوانوں کے ساتھ محبت دیکھ کر دل باغ باغ ہوجاتاہے۔ ایک طرف ہندوستانی انتہاپسند راہنمائوں کے منہ اورفوج کے توپیں پاکستان پر آگ برسارہے ہیں تودوسری طرف وہاں کی خواتین پاکستان نوجوانوں پرپھول برسارہی ہیں۔ہندوستانی خواتین کایہ طرز عمل اس بات کاثبوت ہے کہ ہندوستان ہرمحاذ پر پاکستانی مردانگی کے سامنے کمزورہے، خواہ جنگ ہویامحبت ۔ میں یہاں یہ حقیقت بھی واضح کرلوں کہ طاہرعلی اورڈاکٹرعظمیٰ کی محبت کی کہانی بالکل سچی ہے اوردونوں واقعی دل وجان سے ایکدوسرے پرمرمٹنے کو تیارتھے لیکن ایسے نازک معاملات میں بروقت دانشمدانہ فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔اس سلسلے میں میرے خیال میں سب سے بڑی غلطی طاہرعلی سے صادرہوئی ہے، جس نے بھارت کی پڑھی لکھی اورلبرل مائنڈڈخاتون کوملائشیا اورپھرہندوستان کی آزادانہ زندگی سے اٹھاکر دورافتارہ پہہاڑی گائوں کی تنگ گلیوں اورمحدودچاردیواری میں زندگی گزارنے پرمجبورکرنے کی ناکام کوشش کی۔
وہ خوش تھیں اورزندگی بھر طاہرعلی کے ساتھ گزارناچاہتی تھی ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹرعظمیٰ اورطاہرعلی کی زندگی کے میعارمیں جوفاصلے ملائشیامیں مٹ چکے تھے ، وہ پاکستان میں یکدم ظاہرہوئے اوریہی دومتضادمعیارزندگی دونوں کے درمیان دوری کاسبب بنے۔یہاں زندگی محدود ہے۔ زندگی کی بنیادی سہولیات کافقدان ہوتاہے۔ ٹوٹی پھوٹی کچی سڑکیں،بجلی کی لوڈشیڈنگ، گیس کی عدم موجودگی، پارک یادیگرکسی دیگرتفریحی مقام کانام ونشان نہیں، بہترین صحت اوراعلیٰ تعلیم کے لئے کوئی ادارہ نہیں ہے۔ خواتین کے لئے بزنس کاکوئی موقع نہیں اورنہ انہیں یہ اجازت دی جاتی ہے۔
بغیر پردے کے کوئی خاتون گھرسے باہرقدم نہیں رکھ سکتی۔ڈاکٹرعظمیٰ کا یکدم ایسے ماحول میں آنااورپھرطاہرعلی کے خاندان والوں کے لئے اسے اپنے خاندان کاحصہ تسلیم کرنابہت مشکل اقدام تھا۔اوپرسے طاہرعلی کی پہلی بیوی اوراسکے چاربچوں کی موجودگی میں ڈاکٹرعظمیٰ کویقین ہوگیاتھاکہ اسکے خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتے۔طاہرعلی اسکے لئے آسمان سے تارے نہیں توڑسکتاتھا توکم ازکم اپنے بس کے مطابق ہرممکن خوشی فراہم کرنے کی کوشش ضرورکرتا۔انکانکاح بھی ہوااوربوقت نکاح ڈاکٹرعظمیٰ خوب مطمئن تھی اورابھی تک اس نے زندگی بھر ساتھ نبھانے کے وعدے کوتوڑنے کاشائد سوچابھی نہ تھالیکن کچھ توتھا، جس نے اس بہادرخاتون کو اپنے فیصلے پر نادم کیااورزندگی کارشتہ لمحوں میں توڑنے پرمجبورکیا۔اس وقت یہ معاملہ عالمی میڈیاکی زینت بناہواہے لیکن سب سے اہم مسئلہ ڈاکٹرعظمیٰ اورطاہرعلی کی ازدواجی زندگی کاہے۔اب ضرورت اس امرکی ہے کہ پاکستان اوربھارت کی حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے اوردونوں کوایکدوسرے کاشریک سفربنائے، خواہ پاکستان میں ہو، بھارت میں ہو یا ملائشیا میں۔