اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کی فوج نے ’ڈان لیکس‘ سے متعلق تحقیقاتی کمیٹی کی سفارشات کے بارے میں وزیراعظم نواز شریف کے دفتر سے جاری نوٹیفیکیشن کو مسترد کرنے والی ٹویٹ واپس لی ہے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ کی طرف سے بدھ کو جاری بیان کے مطابق ’ڈان لیکس‘ کی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے پیرا 18 میں دی گئی سفارشات کی وزیراعظم نے منظوری دی جس کے بعد ’ڈان لیکس کا معاملہ طے پا گیا ہے۔‘‘
بعد ازاں فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ 29 اپریل کی ٹویٹ اُس وقت سامنے آنے والے نا مکمل نوٹیفیکشن کے بارے میں ردعمل تھا۔
’’پریس ریلز جو ہماری طرف سے ہوئی، اُس کو بنیاد پر بنا کر فوج اور حکومت کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا گیا۔۔۔ جو ہماری پریس ریلز تھی وہ کسی حکومتی شخصیت یا ادارے کے خلاف نہیں تھی۔ جو نوٹیفیکشن ہوا تھا، اُس کے نا مکمل ہونے پر (فوج کی طرف سے) پریس ریلز جاری کی گئی تھی۔‘‘
واضح رہے کہ اکتوبر 2016 میں اخبار ڈان میں خبر شائع ہوئی تھی کہ قومی سلامتی کے اجلاس میں سیاسی قیادت نے عسکری قیادت پر زور دیا کہ ملک میں غیر ریاستی عناصر کے خلاف کارروائی ضروری ہے بصورت دیگر پاکستان کو عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
حکومت اور فوج دونوں ہی کی طرف سے اس خبر کی تردید کی گئی تھی تاہم اخبار ڈان کا اصرار تھا کہ اس نے حقائق کی جانچ کے بعد ہی یہ خبر شائع کی تھی۔
حکومت نے سابق جج عامر رضا خان کی سربراہی میں اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی قائم کی تھی جس میں فوج کے خفیہ اداروں آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس، وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) اور انٹیلی جنس بیورو کے ایک، ایک رکن کے علاوہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اور پنجاب کے محتسب اعلیٰ بھی شامل تھے۔
تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ ملنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کی طرف سے ایک نوٹیفیکشن جاری کیا گیا تھا، جس میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اُمور خارجہ طارق فاطمی کو عہدے سے ہٹا دیا گیا جب کہ وزارت اطلاعات و نشریات کے پرنسپل انفارمیشن افسر راؤ تحسین کے خلاف مروجہ محکمانہ قانون کے مطابق کارروائی کا حکم دیا گیا۔
لیکن اس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ یہ نوٹفیکیشن انکوائری بورڈ کی سفارشات کے مطابق نہیں ہے ’’نوٹیفیکیشن مسترد کیا جاتا ہے۔‘‘
تاہم بدھ کو نیوز کانفرنس کے دوران میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ آئی ایس پی آر کے بیان کے بعد جو کچھ ہوا وہ ’’قابل افسوس‘‘ ہے۔
’’ایسے حالات نہیں ہونے چاہیئے تھے کہ جس میں ہر بندے نے میڈیا پر بھی اور باہر بھی ایک پوزیشن لے لی۔۔۔۔ اس پریس ریلز کا مقصد کسی بھی طرح سے، کسی ادارے یا شخصیت کے ساتھ فریق بننا نہیں تھا۔‘‘
اُنھوں نے کہا اب وزارت داخلہ نے ایک نوٹیفیکشن جاری کر دیا ہے، جس میں تحقیقاتی کمیٹی کی جو سفارشات تھیں اس کا مکمل آرڈر جاری کر دیا ہے۔
’’ہم حکومت کی کوششوں کو سراہتے ہیں کہ نا صرف وہ مکمل حقائق سامنے لے کر آئی بلکہ جو غلط فہمیاں تھیں گزشتہ دو تین ہفتوں کے دوران اُنھیں بھی دور کیا۔‘‘
اس صورت حال میں ملک میں جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں بھی تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا، تاہم میجر جنرل آصف غفور نے بدھ کو کہا کہ فوج جمہوریت کی حامی ہے۔
’’پاک فوج بھی جمہوریت کی اُتنی ہی تائید کرتی ہے، جتنا کہ ہر پاکستانی کرتا ہے۔ ہم اس کی مضبوطی کے خواہاں ہیں اور آئین کی پاسداری کرتے ہوئے جو بھی ملک کے لیے بہتر ہے اُس کی طرف ہم چلتے رہیں گے۔‘‘
فوج کی طرف سے جاری اس بیان سے قبل بدھ کو وزیراعظم نواز شریف اور فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان ملاقات ہوئی، جس میں وزیر داخلہ چوہدری نثار اور انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لفٹیننٹ جنرل نوید مختار بھی شریک تھے۔