تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری ہندو سامراجی بنیے ڈیڑھ لاکھ کشمیریوں کو زخمی اور 80 ہزار کو گرفتار کر کے بھی بالآخر شکست سے دو چار ہوں گے نوشتۂ دیوار ہے کہ ایک لاکھ مسلمان شہیدوں کا خون ضرور رنگ لائے گا اور بالآخر کشمیر ہندوئوں کا قبرستان بن کر رہ جائے گا ٹرمپ کی امریکی دفاعی بجٹ میں 54 بلین ڈالر کا اضافہ کرنے کی جنگی حکمت عملی شام، عراق اور افغانستان میں ناکام نظر آتی ہے۔
امریکی افواج کو اب سویلین افراد کی ہلاکتوں کے باوجود کسی بھی جگہ پر حملہ کرنے کے لیے وائیٹ ہائوس سے اجازت نہ لینا ہوگی مگر شمالی کوریا میں پھر بھی ناکامی کا منہ ہی دیکھنا پڑے گا ویسے پچھلے دنوں جیسے افغانستان کے فوجی اڈے پر طالبان نے تباہی مچائی اس سے محسوس ہوا کہ طالبان کو پسپا کرنا آسان کام نہ ہے آج تک استعمال کیے جانے والا دنیا کا سب سے بڑاغیر جوہری بم GBU-43/Bکا 13اپریل2017بروز جمعرات کوہولناک دھماکہ امریکہ نے کیاجس سے32 کلومیٹر تک آسمان پر بادل چھا گئے اس کو ایٹم بم کے بعد سب سے زیادہ ہلاکت خیز سمجھا جاتا ہے ایسا بم جو 1کلومیٹر کے دائرے میں ہر چیز تباہ برباد کردیتا ہے اس بم کا وزن 21600پائونڈ یعنی تقریباً 11ٹن ہے جو پورے علاقے میں آکسیجن جذب کرلیتا ہے جس کے نتیجے میں غاروں ،سرنگوں اور زیر زمین جاندار تک ہلاک ہوجاتے ہیں اسے پیرا شوٹ کے ذریعے امریکی فضائیہ کے 130Cطیارے سے گرایا گیا تھامشرقی افغانستان صوبہ ہنگر بار میں اسد خیل نامی علاقے میںواقعہ مومن کے دیہاتی علاقہ پر پھینکا گیا جس سے داعش کے 36جنگجو مارے گئے۔
بعد میں بڑھ کر ہلاکتوں کی تعداد 96ہوگئی مگر خدشہ ہے کہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلی ہے اور کئی درجنوں سویلین بھی ہلاک اور عمارات تباہ ہوگئی ہیں امریکہ کے ہی جاسوسی پروگرام کے پول کھولنے والے گھر کے بھیدی ایڈورڈ اسٹوڈن نے ٹویٹ کیا کہ امریکہ نے دراصل مشرقی افغانستان میں بنائے گئےCIAکے مخفی ٹھکانوں کومٹانے کے لیے اس بم کو استعمال کیا ہے جس ملک کو تباہ کرنا ہو امریکہ وہاں اپنے دشمن خود تخلیق کر لیتا ہے یہ داعش القاعدہ وغیرہ ذرائع کے مطابق اس کی اپنی تخلیق کردہ ہیں ایسے وقت ایسے بم کو استعمال کرنا جب کہ روس کے دار الحکومت ماسکو میں14ممالک کی افغانستان میں امن کے لیے کانفرنس ہو رہی تھی اور یہ بھی کہ امریکہ نے اس کانفرنس کا بائیکاٹ کر رکھا تھاطاقت کے زعم میں امریکہ سمجھتا ہے کہ وہ تباہی پھیلا کر اور بموں کی ماں استعمال کرکے دنیا کو خوف زدہ کرسکتا ہے مگر ایسے حملوں سے طالبان کو شاید زیر کرنا مشکل ہے عرصہ سے امریکہ نے کھربوں ڈالر خرچ کرکے افغانستان سے سوائے اپنے فوجیوں کی لاشوں اور شرمندگی اور شکست خوردگی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں کیا۔اب تو اس کی اتحادی افواج بھی جواب دے چکی ہیںاور خود امریکہ کے اندر ہی ایسی افغانستان پالیسی کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ طالبان آج بھی افغانستان کی ایک بڑی قوت ہیں آدھے سے زیادہ افغانستان پر ان کا قبضہ ہے اور مزید اضلا ع پر قبضہ جماتے جارہے ہیں۔گلبدین حکمت یارکے واپس کابل پہنچ جانے پر کرزئی اور عبد اللہ عبد اللہ نے خوشیاں تو ضرور منائیں مگر اس کی طالبان اور پاکستان سے ہمدردی واضح ہے۔
ٹرمپ کے آتے ہی مسلمانوں کے قتل عام شروع ہوگئے ہیں ان حالات میںOIC مسلم امت کو صحیح حکمت عملی واضح کرسکتی ہے 45اسلامی ممالک کی مشترکہ افواج بھی مؤثر کردار ادا کرسکتیں ہیںجادو وہ جو سر چڑھ کر بولے ہمیں بھی سبھی قوتوں بشمول سامراجی ممالک سے بر ابری کی بنیاد پر تعلقات قائم رکھنے چاہیں جس سے کسی کی ناقدری بھی نہ ہو اور کوئی ہمیں بھی آنکھیں نہ دکھا سکے ویسے امریکہ کی طرف سے ہماری ہر قسم کی امداد بند کرڈالنے کے بعد اسے اپنی پالیسیوں کا جائزہ لینا ہوگا ہم تو اس کی بجائے چین سے قرضہ جات اور مالی امداد لے رہے ہیں ہماری خارجہ پالیسی اب واضح طور پر اب دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے دشمن والی ہونی چاہیے خارجہ امور پر ایکسپرٹ افراد متعین ہوں جو ہماری دینی حمیت خوداری اور بردباری کا مظاہرہ کریں حقانی نیٹ ورکس یا دوسرے جہادی گرہوں کے خاتمہ کا امریکی دبائو اب شاید نہ چل سکے ہم نے اس کے پارٹنر بن کر اپنے علاقوں پر ڈرون حملے کروائے ہزاروں فوجی اور سویلین اس کی شروع کردہ جنگ میں شہید کروائے آپ ہی اپنی ادائوں پر ذراغور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی مشرف نے ایک کال پر اپنے ائیر پورٹ ہمسایہ ملک پر حملہ کرنے کے لیے پیش کردیے تھے اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں امریکہ افغانستان چھوڑ کر جارہا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی چارا نہیں ہمیں بھی طالبان سے مزید دوری جائز نہ ہوگی کہ وہ بھی کل کو ہمیں ہی دشمن نہ سمجھ بیٹھیں طالبان کی دوبارہ حکومت افغانستان کی قسمت میں لکھی گئی ہے اس سے کوئی دنیاوی طاقت انکار بھی نہیں کر رہی امریکی ٹوڈی حکومت اس وقت افغانستان میں پرِکاہ جیسی ویلیو بھی نہیں رکھتی یہ تو امریکہ اسرائیل اور ہندوستان کی امداد سے ہی کاغذی شیر بنے ہوئے ہمیں اور طالبان کو غراتے رہتے ہیں گلبدین حکمت یار کے پہنچنے پر اب سارا سناریو ہی تبدیل ہو جائے گا۔
چمن بارڈر پر ہمارے ساتھ کشمکش دراصل بھارتی افواج مقیم افغانستان نے ہی پیدا کر رکھی ہیں امریکہ کے طفیلی بن کر ہم نے ہزاروں افراد شہید کروائے نتیجتاً افغانستان کو بھی اپنا دشمن بنا بیٹھے ہیں مغربی بارڈر پر موجود اپنے ہی ان پختون بھائیوں سے دست پنجہ ہوگئے جو یہاں پر ہمارے محافظوں کا کردار ادا کرتے تھے ۔کہیں نہ کہیں ہم سے غلطی نہیں غلطان ہورہا ہے واپس مڑ کر ہمیں اپنی پالیسیوں پر غور کرنا چاہیے اب تو یہ کوئی راز نہیں رہا کہ9/11کا واقعہ خالصتاً یہودی شرارت تھی جس کا پکا ثبوت یہ کہ جس روز حملہ ہوا اس روزاس عمارت میں کام کرنے والے تمام ہزاروں یہودیوں نے چھٹی لے رکھی تھی افغانستان کی دیکھا دیکھی بنے ہوئے مختلف طالبان نما گروہوں کو تشدد پسند ہوں یا دوسری قسم کے کو بھی واپس پلٹ کر پاکستانی محبت دلوں میں جا گزیں کرنا ہوگی ہمیں بھی کوئی دُو ررس پالیسی اپنانا ہوگی کہ اس کے بغیردونوں کا گزارہ نہ ہے۔ وما علینا الاالبلاغ۔