تحریر : طارق حسین بٹ شان ڈان لیکس نے پچھلے چند ماہ میں جس طرح خبروں میں اپنی جگہ بنائی ہوئی ہے وہ محتاجِ بیان نہیں ہے۔ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں آئینی، قانونی اور دستوری راہ میں صرف ڈان لیکس ہی سدِ راہ بنی ہوئی ہے وگرنہ اگر ڈان لیکس کا قضیہ نہ ہوتا تو پاکستان راتوں رات ترقی کی ساری رکاوٹیں عبور کر لیتا۔یہ کم بخت ڈان لیکس ہی ہے جو پاکستان کی ترقی کا راستہ زبردستی روک کر ملک کو آگے نہیں بڑھنے دے رہی۔ میڈیا نے اس واقعہ کو پاکستان کی یکجہتی اور اس کی سلامتی پر ننگا حملہ قرار دیا اور میاں محمد نواز شریف کو سبق سکھانے کا سنہری موقع گردانا۔ بعض اینکرز کو رائی کا پہاڑ بنانے کا فن آتا ہے اور وہ باتوں باتوں میں رائی کا پہاڑ بنا بھی دیتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے دربارِ فرعون کے ساحرین نے رسیوں سے سانپ بنا دئے تھے۔
تھیں تو وہ رسیاں لیکن نظر سانپ آتی تھیں۔یہی حال چند اینکرز کا ہے جو ڈان لیکس سے ایسے سانپ بنانے کی کوشش میں جٹ گئے تھے جو میاں محمد نواز شریف کے خاندان کو ڈس کر ان کا سیاسی کھیل ختم کرسکتے ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ باطل سچائی کو نہیں نگل سکتا۔جن لوگوں کی سوچ منفی ہوتی ہے وہ چیزوں کو اس کے اصلی تناظر میں دیکھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔انھیں دیوار ہمیشہ ٹیرھی ہی نظر آتی ہے کیونکہ ان کی آنکھ بھینگی ہو تی ہے۔ایسے لوگ لاکھ کوشش کر کے دیکھ لیں ان میں مثبت سوچ جنم نہیں لے سکتی کیونکہ ان کی اساسی فکر باطل پر ہوتی ہے۔ وہ اپنے ضمیر کی ترجمانی کم اوراپنے آقائوں کی ترجمانی زیادہ کرتے ہیں لہذا ٹیڑھ پن کا شکار ہوتے ہیں۔کوشش کی گئی کہ کسی طرح سے اس قضیہ میں مریم نواز کو بھی گھسیٹا جائے تا کہ مستقبل کی متوقع وزیرِ اعظم کا مستقبل بالکل مخدوش ہو جائے۔اس کوشش میں تو میڈیا کی ایک مخصوص لابی کامیاب نہ ہوسکی لیکن میڈیا کاکھڑا کیا گیا ہوا فوجی قیادت کے جسم میں ہوا بھرنے میں ضرور کامیاب ہو گیا۔فوج نے ڈان لیکس کو اپنے وجود کے خلاف ایک ناقابلِ معافی حملہ قرار دے دیااور پھر فوج کو جس طرح سے میاں محمد نواز شریف کی آئینی حکومت کے خلاف کھڑا کیا گیا وہ انتہائی دلچسپ کہانی ہے۔،۔
ایسا لگتا تھا کہ جیسے فوجی قیات اور سول قیادت دو مختلف ممالک سے تعلق رکھتی ہیں اور دونوں کا ایک پیج پر آنا نا ممکنات میں شامل ہے۔یہ سچ ہے کہ ڈان لیکس پر بٹھا ئی گئی انکوائری کمیٹی رپورٹ کے مندرجات کی روشنی میں حکومت نے مناسب کاروائی بھی کر دی تھی لیکن میڈیا کی نیت چونکہ انتشار کو ہوا دینا تھی لہذا میڈیا کو اس حکومتی اقدام پر تشفی نہ ہوئی ۔اس نے اس بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور حکومت کو دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کی ۔ان کی نظر صرف وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کی سپتری کو ملوث کرنے پر مرکوز تھی اور وہ اس سے کم پر رضا مند ہو نے کے لئے تیارنہیں تھا۔انھیں سر چائیے تھا اور وہ بھی وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کی دخترِ نیک اختر مریم نواز کا لیکن میاں نواز شریف جیسا معتدل مزاج شخص کیا ایسا کر سکتا تھا؟شائد بہت سے لوگ ابھی تک میاں محمد نواز شریف کے مزاج کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
انھیں خبر نہیں کہ وزارتِ عظمی کی کرسی پر برا جمان ہونے والا انسان ،جسے دنیا میاں میاں محمد نواز کے نام سے جانتی ہے اور جو جنرل پرویز مشرف جیسے مردِ آہن کو شکست دے کر ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنا ہوا ہے کیا وہ میڈیا کے اٹھائے گئے طوفان میں اپنا استعفی پیش کر کے گھر کی راہ لے گا؟ارے یہ وہ میاں صاحب نہیں جو اسٹیبلشمنٹ سے خوفزدہ ہو کر سعودی عرب جلا وطن ہو گئے تھے بلکہ یہ ایک بالکل نئے اور بدلے ہوئے میاں صا حب ہیںجھنیں پاکستان میں ہی رہنا ہے اور سب کو سبق سکھانا ہے۔چشمِ تصور سے دیکھنے کی کوشش کریں کہ وہ بیٹی جسے میاں محمد نواز شریف سالہا سال سے اس قوم کی قیادت کیلئے تیار کر رہے ہیں کیا وہ اسے مخصوص میڈیا کی اپنی تخلیق کردہ کہانیوں کے خوف سے نا اہلی کی نذر کر سکتے تھے ؟میری ذاتی رائے ہے کہ میاں محمد نواز شریف کے پاس میڈیا کی خریدی ہوئی اپنی فوج ظفر موج ہے جو ان کا دفاع کرنے کے لئے ہمہ وقت چوکس رہتی ہے لہذا انھیں میڈیا کا رتی برابر بھی کوئی خوف نہیںہے اور نہ ہی وہ میڈیا کی اٹھائی گئی کہانیوں کا کوئی اثر قبول کرتے ہیں بلکہ وہ وہی کرتے ہیں جس کا انھوں نے تہیہ کر رکھا ہوتا ہے ۔ میڈیا موجودہ دور کی بہت بڑی حقیت ہے لہذا میڈیا کی رائے اور تجزیہ سننا ضروری ہے لیکن جہاں پر میڈیا تعصب اور کینہ پروری کا شکار ہو جاتا ہے وہاں پر میڈیا کو نظر انداز کرنا ضروری ہو جاتا ہے اور میاں محمد نواز شریف کا یہی وطیرہ ہے۔وہ سنتے سب کی ہیں لیکن کرتے وہی ہیں جو ان کی ہونہار سپتری ان کے کان میں سر گوشی کر دیتی ہے۔میڈیا کا بنیادی کام بے لاگ تجزیہ پیش کرنا اور ملکی حالات کی صحیح تصویر اجاگر کرنا ہے۔ تا کہ حکومت ملک و قوم کی بہتری کا فیصلہ کر سکے ۔ یہ میڈیا کی دردِ سری نہیں ہے کہ وہ حکومت کو مجبور کرے کہ وہ اس کے اٹھائے گئے نکات کی روح کے مطابق فیصلے کرے ۔یہ حق پاکستانی عوام کے پاس ہے ، ملک کی سیاسی جماعتوں کے پاس ہے اور اپوزیشن کے پاس ہے ۔ ہاں میڈیا اس قدغن کے خلاف جو حکومت اس کی آازدیِ رائے پر لگائے احتجاج کا مکمل حق رکھتی ہے اور جمہوریت پسند عوام ان کے اس احتجاج میںاس کے شانہ بہ شانہ شامل ہو کر ان کی آزادیِ صحافت کی جنگ میں ان کے دست و بازو بن سکتے ہیں لیکن سیاسی معاملات پر میڈیا کا حکومت کو مجبور کرنا کسی بھی پہلو سے مستحسن قرار نہیں دیا جا سکتا۔،۔
وزیرِ اعظم پاکستان نے ڈان لیکس کی کور کمیٹی کی روشنی میں ایک نوٹیفکیشن جاری کیا لیکن ایس پی آر نے انتہائی غیر مہذب انداز میں ایک ٹویٹ میڈیا کو جاری کیا جس میں وزیرِ اعظم کے فیصلے کو مسترد کرنے کا اعلان کر دیا۔اس ٹویٹ کو جمہوریت نواز حلقوں نے انتہائی نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھا۔یہ ٹویٹ آئینِ پاکستان سے کھلی بغاوت تھی جس کی ا جازت نہیں دی جا سکتی تھی۔پوری قوم فوج سے محبت کرتی ہے اور اس کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے لیکن انھیں آئینی حدود کو پامال کرنے کا اجازت نامہ نہیں تھما یا جا سکتا ۔ یہ ٹویٹ فقط ٹویٹ نہیں تھا بلکہ پورے جمہوری نظام سے بغاوت کا آئینہ دار تھا۔وہ لوگ جو میاں محمد نواز شریف کی سبکی چاہتے تھے وہ تو اس ٹویٹ پر خوشی سے بغلیں بجا رہے تھے۔انھیں یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس ٹویٹ نے میاں محمد نواز شریف کو گھائل کر کے رکھ دیا ہے اور ان کے پاس نجات کی کوئی راہ نہیں بچی اور وہ ایسے جھمیلے میں گر چکے ہیں جہاں ان کی پسپائی نوشتہ دیوار ہے لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ کچھ لوگ میاں محمد نواز شریف کو سمجھ نہیں پا رہے۔وہ پاکستان کے منتخب وزیرِ اعظم ہیں اور ٢٠ کروڑ عوام کے ترجمان ہیں۔پاکستانی عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ انھیں پاناما لیکس کی کرپشن پر عدالتوں میں گھسیٹیں ،ان سے ملکی خزانے کا حساب مانگیں،انھیں جواب دہی کے لئے مجبور کریں ، انھیںشفافیت پر دھمکیاں دیں، ان پر قانون کی حکمرانی کیلئے دبائو ڈالیں، ان کے خلاف جلسے اور جلوس کریں،ان کے خلاف احتجاج کریں اور ان کے خلاف تحریکیں چلائیں اور انھیں آئین و قانون کا پابند کرنے کی کوشش کریں لیکن یہ حق کسی ا دارے کو تفویض نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنے ٹویت سے یہ کہے کہ ہم وزیرِ اعظم کے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں۔
اگر فوج محبِ وطن ہے تو مسلم لیگ(ن) کی قیادت بھی محبِ وطن ہے۔کیامحبِ وطن ہو نے کا سرٹیفکیٹ صرف ایک ادارے کے پاس ہے؟ پاکستانی عوام اس ملک کے اصل محافظ ہیں اور ان کے منتحب وزیرِ اعظم ان کی حب الوطنی کی علامت ہیں ۔خدا را اس علامت کی تضحیک مت کیجئے ۔جمہوریت جیسی بھی ہے اسے مزید بہتر بنانے کی کوشش کیجئے۔مجھے تسلیم ہے کہ ہم جمہوریت کے جس گھر میں رہ رہے ہیں وہ انتہائی بوسیدہ ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسے خود اپنے ہاتھوں سے گرا دیں؟ہمیں آگے بڑھنا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب اس ملک کے طاقتور ادارے حکومت کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہو کر اس کا ساتھ دیں نا یہ کہ اس کی اتھارٹی کو چیلنج کر کے ملک کو مزید انتشار کی نذر کر دیں۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال