لاہور: منفرد لب و لہجہ کی خوبصورت شاعرہ ، ادیبہ، اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور پاکستان میں شعبہ اُردو کی لیکچرار فرزانہ ریاض کو اُنکے تحقیقی مقالہ بعنوان ــ’’بیسویں صدی کی اُردو غزل (کلاسیکی رجحانات و میلانات کا احیا)‘‘ پر اورینٹل کالج ،پنجاب یونیورسٹی، لاہور نے پی ایچ ڈی (ڈاکٹر آف فلاسفی )کی گراںقدر ڈگری تفویض کی۔ انھوں نے اپنا تحقیقی مقالہ مشفق و محترم استاد ڈاکٹر محمد فخر الحق نوری ،ڈین کلیۂ علوم شرقیہ، پرنسپل ،اورینٹل کالج ، پنجاب یونیورسٹی ،لاہور کی نگرانی میں مکمل کیا ہے۔
فرزانہ ریاض نے گورنمنٹ کالج ،لاہور سے ایم۔اے (اُردو)، کرنے کے بعد کئی برس تک گھریلوں ازدواجی زندگی سے منسلک رہی ۔ اس کے بعد ۲۰۱۰ء میں کچھ فرصت ملی تو ان کے دل میں دبی مزید تعلیم کی طلب انھیں دوبارہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی ، لاہور کھینچ لائی۔ انھوں نے ایم ۔فل اُردو میں داخلہ لیا۔ ڈاکٹر محمد کامران کی نگرانی میں ’’منشا یاد کی غیر افسانوی نثر کا تجزیاتی مطالعہ ‘‘کے موضوع پر مقالہ مکمل کر ایم فیل کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد ۲۰۱۲ء میں انھوں نے اسی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی(ڈاکٹریٹ) میں داخلہ لیا اور کم عرصہ میں ہی پی ایچ ڈی(ڈاکٹریٹ) کی گراں قدر ڈگری حاصل کی۔
بیسویں صدی و اقعاتی اور تخلیقی سطح پر تبدیلیوں کی صدی ہے۔ اس صدی نے جہاں اردو غزل کی بدلتی ہوئی سماجی و سیاسی قدروں کا ساتھ دیتے ہوئے جدت سے روشناس کرایا وہیں غزل نے ایک تیسرا راستہ اختیار کیا اور وہ راستہ قدیم و جدید کے امتزاج کا تھا۔ اس طرح کلاسیکی غزل جو مردہ ہوچکی تھی اس کا پھر سے احیا ہوا۔ اردو غزل نے دلّی اور لکھنؤ کے دبستان کی زندہ اور صالح خصوصیات کو قبول کرکے اپنے اند ر اس طرح جذب کرلیا کہ دونوں میں فرق باقی نہ رہا۔
یہ مقالہ بھی بیسویں صدی کی اردو غزل میں کلاسیکی رجحانات و میلانات کا عملی احیا کرنے والے غزل گو شعرا کا صحیح مقام و مرتبہ متعین کرنے میں مدد گار ثابت ہونگا۔ اس موضوع پر جو زاویہ نظر محترمہ فرزانہ ریاض نے اختیار کیا ہے اس زاویہ سے ابھی تک کوئی کام نہیں ہوا۔ اس مقالے میں انہوں نے اردو غزل کے تشکیلی دور سے ترقی یافتہ دور تک تمام مراحل کا تفصیلی اور تجزیاتی جائزہ لیا ہے۔ جس سے اردو غزل کی درجہ بہ درجہ ترقی تفصیلاً سامنے آجاتی ہے۔
تحقیق کے اس سفر میں فرزانہ ریاض اپنے والدین کی سپاس گزار ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ سب ان کی شب و روز کی دعائوں کا اثر ہے کہ میرا کام ہزار ہا مشکلات کے باوجود بالآخر مکمل ہوا۔ ان کی بے پایاں شفقتیں اور محبتیں ان کے لیے سرمایہ حیات ہیں۔ اگر ان کی دعائیں شامل حال نہ ہوتیں تو شاید اس مقالے کی تکمیل ایک ادھورا خواب رہتا۔
اس کامیابی کے لئے وہ اپنے شریک سفر ریاض احمد شاد کی محبت اور تعاون کی بھی مقروض ہیں اور ان کے خیال میں شاید زندگی کے اس سفر میں اس قرض کو ادا نہ کر پاتیں۔ اس لیے اس مقالے کا انتساب بھی اپنے شریک سفر ریاض احمد شاد کے نام کیا ہے۔
کام کی مشکلات کو اپنی مسکراہٹوں اور شرارتوں سے آسان بنادینے والے اپنے بچوں رئیسہ ، بختاور،محمد یوسف اور محمد عبدالرحمن کی بھی ممنون ہیں۔ جن کے ہونے سے زندگی میں خوشیوں کے سبھی رنگ دمکتے ہیں۔
ادبی حلقوں نے فرزانہ ریاض کو ڈاکٹریٹ کی گراں قدر ڈگری تفویض کئے جانے پر مبارکباد دی۔