تحریر : مسز جمشید خاکوانی اس بار مدر ڈے کے حوالے سے لکھنے کا ارادہ تھا لیکن اتنی مصروف رہی کہ مدر ڈے آ کے گذر بھی گیا یہ تو بچوں نے وش کیا تو معلوم ہوا اوہ آج تو مدر ڈے تھا جن کی مائیں زندہ ہوتی ہیں وہ خوش نصیب ہوتے ہیں دعا دینے والے ہاتھ سلامت ہوں تو بہت سی الجھنیں خود بخود سلجھ جاتی ہیں بہت سی مصیبتیں ٹل جاتی ہیں بہت سی زمہ داریاں مائیں اپنے کندھوں پر اٹھائے رکھتی ہیں پتہ تب چلتا ہے جب وہ بوجھ خود پہ آ پڑتا ہے۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہانی ختم ہونے کے بعد اس کا ادراک ہوتا ہے جب وہ کردار آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے اماں بھی ایک ایسا ہی کردار تھا جس کے لاکھوں روپ ہیں تھوڑے تھوڑے فرق سے سب ایک جیسے،کسی نے سچ کہا مائیں سب ایک جیسی ہوتی ہیں اور جو ایک جیسی نہیں ہوتیں وہ مائیں ہی نہیں ہوتیں بس عورتیں ہوتی ہیں۔
اس نے ہمیشہ اماں کو چولہے کے آگے ہی بیٹھے دیکھا صبح آنکھ کھلتے ہی رات سونے تک ،حالانکہ گھر میں درجنوں ملازم تھے ابا کی ڈیرہ داریاں چلتی تھیں صبح سے رات گئے تک مہمان آتے جاتے رہتے ابا کا حکم تھا کوئی کھانا کھائے بغیر نہ جائے اور اماں اس چکی میں پستی رہیں ابا خود تو نفیس لباس زیب تن کیے ٹھاٹ سے تکیہ لگائے پلنگ پر بیٹھے رہتے یا پھر مہینوں غائب رہتے اماں ہر سال بچہ جنتیں یا پھر چولہے کے آگے بیٹھی رہتیں ابا واپس آتے تو کئی قسم کی سوغاتیں لاتے پھل،مٹھائیاں،میوے،قسم قسم کے ملبوسات ڈھاکہ کی ململ، بنارس کی ساڑھیاں ،بروکیڈ کے سوٹ انگلینڈ سے ولائتی پائوڈر ،سرخی ،عطر ایسے کہ زرا سا کھولو تو پورے محلے میں خوشبو جاتی خوبصورت منقش لکڑی کے بکس میں سرخ مخمل کے خانوں میں ترتیب سے رکھی بلوریں چھوٹی چھوٹی بوتلیں جن کے اندر خوشبو کا خزانہ بھرا ہوتا وہ ابا کی دیوانی تھی ہنستے مسکراتے خوش لباس ابا سب کو ہی اچھے لگتے لیکن وہ اماں کو جانے کیوں برے لگتے یہ گھتی اس سے کبھی نہ سلجھی ابا کی لائی ساری چیزیں اماں خاندان میں بانٹ کر خود ویسی کی ویسی رہتیں اماں کی خوبصورتی کھنڈر ہوتی جا رہی تھی اف کیا مصیبت ہے اماں کو ان سے تو گھر کی نوکرانیاں زیادہ سجی بنی رہتی ہیں۔
وہ اکثر تلملا کر سوچتی میں اماں جیسی کبھی نہیں بنوں گی وہ اپنے عہد کو پھر سے دہراتی دادی کہتی تھیں یہ ناشکری عورت ہے ارے کون سی نعمت اس گھر میں نہیں؟ زیور ،کپڑا ،دودھ ،مکھن اجناس کی بھری بوریاں پھلوں سے بھرے ٹوکرے مگر یہ عورت کبھی خوش نہیں ہوتی یہ باتیں سن کر وہ اور بھی اماں سے خفا ہو جاتی رات کو اکثر دونوں کی لڑائی جھگڑے سے اس کی نیند خراب ہوتی اماں روتی جاتیں اور ابا گھرکتے جاتے آخر یہ کیوں لڑتے ہیں اس کی ننھی سی سمجھ میں کبھی نہ آیا وہ اماں سے اور بھی متنفر ہو جاتی جب اماں روتے روتے کہتیں اللہ کرے تیری بیٹیوں کے آگے آئے تب تجھے پتہ چلے گا ،تھوڑا اور بڑا ہونے پر اس کو سمجھ آنی شروع ہوئی کہ ابا حسن پرست ہیں اور مہینوں غائب رہنا اسی مہم جوئی کا حصہ تھا دادی کہتیں سارے مرد ایک جیسے ہوتے ہیں یہ کونسی انوکھی بات ہے مرد بھی کبھی ایک عورت کے گھٹنے سے لگ کر بیٹھا ہے اس سے پہلے کہ وہ اس گھتی کو سمجھنے جوگی ہوتی اس کی اپنی شادی ہو گئی خوابوں جیسا عرصہ تو پر لگا کے اڑ گیا پہلے بچے کی پیدائش کے بعد ہی اسے پتہ چل گیا مرد تو واقعی سب ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن عورتیں سب ایک جیسی نہیں ہوتیں اماں میں تمھارے جیسی نہیں بنوں گی۔
اس نے ایک گہری سانس لی اور پورے عزم سے سوچا تب اس نے اپنے لیے ایک ہی راستہ چنا کہ ہارنا نہیں ہے دکھ بڑا گہرا ہوتا ہے اب احساس ہوتا اماں نے کس اذیت سے زندگی گذاری ہوگی یہ بڑے خاندانوں کے چشم و چراغ کتنی زندگیوں سے کھیلتے ہیں لیکن اپنے مشغلوں میں عورت کا وجود فراموش کر دیتے ہیں عورتیں بھی عجیب مخلوق ہیں اپنے ساتھ کیے گئے ظلم کا بدلہ اپنی جیسی عورتوں سے ہی لیتی ہیں جو کبھی سوکن کی صورت،کبھی ساس اور کبھی بہو بن کے ان کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں عورت کو چاہیے وہ صرف ماں بنے باقی سب رشتے ثانوی ہیں بس اپنی اولاد کی خصوصاً بیٹوں کی تربیت پر دھیان رکھیں ہم بیٹیوں کو تو سینت سینت کر پالتے ہیں لیکن ان بیٹوں کو کھلا چھوڑ دیتے ہیں جنھوں نے آگے چل کے گھر میں مین کردار ادا کرنا ہوتا ہے نسل مرد سے بڑھتی ہے لیکن پرورش تو عورت ہی کرتی ہے عورت ہی عذاب میں ہو تو گھر جڑے نہیں رہ سکتے یہ اور بات کہ عورتوں کے دکھ سانجھے ہوتے ہیں دل میں اماں کا درد محسوس ہوا تو ایک ہوک سی دل میں اٹھی اماں اللہ تجھے جنت نصیب کرے تو اس دنیا کے جہنم میں بہت جلی ہے۔