تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی میں پاکستان کے بااثر طاقت ور شخص کی جنت نگری میں پچھلے ایک گھنٹے سے گھوم رہا تھا، اِس شخص نے اپنی بے پناہ دولت اثر ورسوخ سے زمین پر اپنی جنت بنا رکھی تھی۔ قدرت نے اِس شخص کو بے پناہ ذہانت سے نوازا تھا، جن کو یہ شیطانی کاموں اور اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل میں خرچ کر رہا تھا۔ اپنے روپے پیسے اثر ورسوخ اور شیطانی منصوبہ بندی سے یہ فرعون بنا اپنی زندگی کو بھر پور طر یقے سے انجوائے کر رہا تھا۔ پورے پاکستان میں اِس کا بزنس پھیلا ہوا تھا۔ میں اُس کے ہیڈ آفس آیا ہوا تھا۔ میرے پاس اِس کا بیٹا میری کسی جاننے والے کے ساتھ آیا تھا۔ اُس کے بقول میرا والد دنیا کا سفاک ترین عیا ش آدمی ہے اپنی عیاشی کے لیے دنیا جہاں کی خوبصورت لڑکیوں پر روپیہ پانی کی طرح بہاتا ہے۔ اپنی صحت اور جوانی برقرار رکھنے کے لیے دنیا جہاں کے ڈاکٹروں سے رابطے میں رہتا ہے دولت پر سانپ بن کر بیٹھا ہوا تھا۔ اپنے بچوں کو صرف خرچے کے پیسے دیتا ‘کسی کے اندر ایک لفظ بھی اِس کی گستاخی میں بولنے کی جرات نہ تھی۔ سنگدل اتنا کہ بات بات پر بچوں کا خرچہ بند کر دیتا۔ اِس کی عمر تقریبا 70 سال ہو چکی تھی۔ بچوں کی بھی شادیاں ہو چکیں تھیں۔ لیکن اُن کو غلاموں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور کیا ہوا تھا۔ شہر کی خوبصورت لڑکیوں کو انتہائی زیادہ تنخواہوں پر ملازم رکھتا پھر اُن کو قرضے دیتا ‘دنیا جہاں کی سیریں کراتا کچھ لڑکیاں تو آسانی سے اِس کے جال میں پھنس جاتیں۔ جو قابو نہ آتیں اُن کو قرضے کے بوجھ میں دفن کر کے پیسوں کی واپسی کا تقاضہ کرتا۔ اُن پر چوری کا الزام لگا کہ انہیں اپنے بیڈ روم تک جانے پر مجبور کر دیتا۔
ملک کے بااثر ترین لوگوں سے دوستیاں کر رکھی تھیں اُن کو مہنگے ترین تحائف دیتا’ اپنے فارم ہائوس پر پرتکلف دعوتیں کرتا شراب اور لڑکیاں پیش کرتا اور ملک کے یہ بااثر لوگ پھر اِس کا ہر جائز اور نا جائز کام میں ساتھ دیتے’ اِس کی بیوی اِس کی سنگدلی اور عیاشیوں کی وجہ سے ذہنی مریضہ بن چکی تھی۔ اپنی دولت اور اثر رسوخ کی وجہ سے اِس نے ہر چیز خرید رکھی تھی۔ اب یہ انسان سے جانور بن چکا تھا۔ میرے پاس اِس کا بیٹا اور بہو آئے تھے۔ بہونے اپنے خاوند سے کہا وہ مجھ سے الگ بات کرنا چاہتی ہے۔ علیحدگی میں بہونے زارو قطار روتے ہوئے بتایا کہ میرا سسر ہی فرعون شخص اب اس کی عزت کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ وہ کئی بار میری عزت پر حملہ کرنے کی کوشش کرچکا ہے میں نے بڑی مشکل سے خود کو بچایا ہوا ہے خدا کے لیے دعا کریں یا تو میرا سسر مر جائے یا پھر میں نے خود کشی کر لینی ہے۔ بہو نے یہ بات اپنے خاوند سے چھپائی ہوئی تھی۔ وہ بے بسی لا چارگی اور التجا یا نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی اب میں نے اُس کے خاوند کو بلایا اور کہا کسی طرح میری اپنے باپ سے ملاقات کرائو تو بیٹا بولا میں کوشش کرتا ہوں۔ پھر ایک دن بیٹا میرے پاس آیا کہ میرے باپ کو جگر کی بیماری ہے میں نے آپ کا تعارف کرایا ہے۔ کہ آپ جگر کا علاج کرتے ہیں اب وہ آپ سے ملنے کو تیار ہے لہٰذا آج اسی سلسلے میں میں یہاں آیا ہوا تھا۔
اِس شخص کی عیاشی استقبالیہ سے ہی نظر آنا شروع ہوگئی تھی۔ جہاں دو نہایت خوبرو لڑکیاں بیٹھی تھی اِن لڑکیوں کو تو فلموں ڈراموں میں کام کرنا چاہیے تھا۔ لیکن اِس شخص نے اِن کو مہنگے داموں خریدا ہو ا تھا۔ اب میں اس کے وسیع و عریض دفتر میں بیٹھا تھا۔ دفتر میں اعلیٰ پائے کا انتہائی مہنگا غیر ملکی فرنیچر اور نوادرات تھے ‘دیواروں پر بڑی بڑی تصویریں لگی تھیں کمرے میں اِس کے دو قد آدم مجسمے لگے تھے میں نے زندگی میں اتنا خوبصورت دفتر نہیں دیکھا تھا ہر چیز لاجواب اور مہنگی ترین تھی یہ اپنے دفتر کی سجاوٹ سے ہی آنے والے کی جان نکال دیتا تھا۔ مہنگے ترین لباس میں ملبوس شاہی مسند نما کرسی پر وہ میرے سامنے بیٹھا تھا۔ اُس کی حرکات سے لگ رہا تھا جیسے کسی ملک کے سربراہ سے مل رہا ہوں ملک کے بااثر لوگوں اور سیاستدانوں کے ساتھ اُس کی تصاویر لگی ہوئی تھیں۔ اِس طرح وہ اپنے اثر رسوخ کا مظاہرہ کر رہا تھا۔
اب اُس نے اپنے کاروبار، دولت، تعلقات، دنیا جہاں کی سیر کے متعلق گفتگو شروع کر دی، وہ مجھے مرعوب کرنا چاہ رہا تھا وہ اپنی کامیابیوں کو خدا کی عطاء کی بجائے ذاتی کوشش اور عقل کا سر چشمہ قرار دے رہا تھا۔ کہ میں ایک ذہین ترین آدمی ہوں میں نے یہ سب کچھ اپنی عقل دانائی اور تعلقات کے بل بوتے پر اکٹھا کیا ہے، طاقت اقتدار کے نشے میں وہ خود کو فرعون سمجھ بیٹھا تھا، اُس کی تکبرانہ باتوں سے مجھ فرعون راعمیس دوم 1279قبل یاد آگیا وہ بھی ایسے ہی مرض میں مبتلا ہوا تھا، جب وہ مسند اقتدار پر جلوہ گر ہوا تو اُس کی عمر 20 سال تھی، اُس نے تقریبا 67 سال مصر جیسے زرخیز ملک پر حکومت کی وہ بھی بے پنا ہ ذہنی صلاحیتوں کا مالک ذہین ترین انسان تھا، اُس نے اپنی عقل فہم و فراست سے مصری تہذیب کو حیات نوبخشی اور اسے نقطہ عروج پر پہنچا دیا، اُس نے اپنے ملک کو ترقی یا فتہ اور ناقابل تسخیر بنانے کے لیے دنیا جہاں سے ہر شعبے کے ماہرین کو اپنے ملک میں اکٹھا کیا، ان غیر معمولی ماہرین نے اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر مصر کو سپر پاور بنا دیا، فرعون نے ایسی غیر معمولی روشنائی بنوائی، جوکبھی نہیں مٹتی تھی نعشوں کو صدیوں تک سلامت رہنے کے لیے خاص کیمیکل ایجاد کرائے اپنی مرضی اور وقت پر بادلوں کو حرکت دے کر بارش کرا ئی، ہوائوں کو اپنی مرضی سے موڑنے کا فن حاصل کیا اور پھر اُس نے ایسی ٹیکنالوجی حاصل کی، جس پر آج بھی ترقی یافتہ سائنسدان محوحیرت ہیں، اُس ٹیکنا لوجی کے بل بوتے پر مصری ماہرین سینکڑوں ٹن بھاری پتھر ہوا، میں اٹھاتے اور پھر اُن کو اپنی مرضی سے جوڑ کر احرام بنا دیتے، یہ احرام آج بھی جدید انسان کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں، آج کا جدید انسان بھی اس ٹیکنالوجی پرقادر نہیں ہے۔
اِس کے ماہرین فلکیات آسمانی تبدیلیوں کو دیکھ کر ستاروں کی حرکت کو پڑھ کر آنے والے حالات بلکل ٹھیک بتا دیتے تھے، دریائے نیل کے پانی کو استعمال میں لاکر خوب اناج اور پھل حاصل کرتا، مصری لوگ خوشحالی کے کے ٹوپر پہنچ گئے تھے، تعلیم کے لیے ملک کے طول و عرض میں درس گاہوں کا جال بچھائے آج جدید دنیا یونان کے جن فلسفیوں پر ناز کرتی ہے، یہ تمام مصری فلسفیوں کے فیض یا فتہ تھے، اُس کے پاس دنیا جہان کی دولت کے ہیرے جواہرات سونے چاندی کے پہاڑ نما ذخائر تھے، وہ سونے چاندی جواہرات کے برتنوں میں کھانا کھاتا اگر وہ یہاں تک رہتا تو ٹھیک تھا، لیکن پھر اُن نے وہی غلطی کی جو اکثر انسان طاقت اور اختیار میں کرتے ہیں، اِن کامیابیوں کو اُس نے ذاتی سمجھنا شروع کر دیا، اُس نے نظام قدرت میں دخل دینا شروع کیا، تکبر غرور جو صرف خدا کی چادر ہے، اُس کو سرکانے کی کوشش کی اُس نے خود کو خدا سمجھنا شروع کر دیا، کہ وہ جسے چاہے با دشاہ بنا دے جسے چاہے کنگلا بنا دے جس کو چاہے زندگی دے، جس کو چاہے موت دے غرور کے نشے میں دھت ایک دن اُس نے نجومیوں سے پوچھا بتائو، میری سلطنت کب تک قائم رہے گی، اس دور کے بہترین نجومیوں نے ستاروں کی چال پڑھی، اور کہا جناب بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا، جو آپ کی خدائی کو ختم کر دے گا طاقت کے کے ٹوپر براجمان فرعون نے شاہی حکم صادر فرمایا، آج کے بعد بنی اسرائیل میں جو بھی بچہ پیدا ہوگا، اُسے فوری طور پر قتل کر دیا جائے، اور پھر بنی اسرائیل کے بچوں کا قتل عام شروع ہوگیا، اور پھر یہیں پر کائنات کا اکلوتا وارث حرکت میں آگیا، اور یہیں سے پھر حضرت موسٰی اور فرعون کی عبرت انگیز کہانی کا آغا ز ہوتا ہے، اور پھر حضرت موسٰی کا تعاقب کرتے ہو ئے راعیسس دوم 1213 میں قبل مسیح میں دریائے نیل میں بتاشے کی طرح گھل گیا، اور خدائے بزرگ برتر نے اُس کی لاش ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دی، جو آج بھی قاہرہ کے میوزیم میں نشان عبرت بنی ہوئی ہے۔
میرے سامنے بھی آج فرعون بنا بیٹھا تھا، جو مجھ سے سوال کر رہا تھا، کہ میرا جگر کیسے ٹھیک ہوگا، تو میں نے کہا توبہ کرلیں تو وہ بولا میں بہت سخاوت کرتا ہوں، میں نے کہا کہ اگر آپ توبہ کرلیں تو ہی آپ کا جگر ٹھیک ہوگا، اور پھر میں واپس چلا گیا، اور انتظا ر کر نے لگا کب خدا کی لاٹھی حرکت میں آتی ہے اور پھر خدا نے ہمیشہ کی طرح مجھے وہ دن بھی دکھا دیا۔ اُس کے جگر کا کینسر ناسور میں بدل گیا، کھانا پینا بند ہوگیا۔ پیٹ میں پانی پڑنا شروع ہوگیا، اور وہ بے ہوش ہوگیا، ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دے دیا، اُس کو وہی بیٹا ایمبولینس میں میرے پاس لایا تو وہ نشان عبرت بن چکا تھا، پیٹ پانی سے پھولا ہوا چہرے پر سرخی کی جگہ سیاہی ‘جسم پتھر کا ہوچکا تھا، اور پھر چند دن زندگی موت کی کشمکش میں رہ کر مٹی کا ڈھیر بن گیا، میں جب بھی کسی کو فرعون بنا دیکھتا ہوں تو مجھے دریائے نیل میں غرق وہ فرعون یاد آجاتا ہے، جس نے خدائی کا دعوی کیا، لیکن دریائے نیل میں شکر کی ڈلی کی طرح گھل گیا۔