تحریر : طارق حسین بٹ شان پاکستان پچھلے کئی سالوں سے دھشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور اس نے اس کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ہم دھشت گردی کے جال میں کیسے پھنسے یہ ایک الگ داستان ہے ۔ہمارے فوجی جوانوں اور شہریوں کی شہادتیں اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ ہمیں اس جنگ میں الجھایا گیا ہے تا کہ ہماری ترقی کا راست کھوٹا ہو جائے ۔اس وقت ہماری مغربی سرحدوں سے ہم پر متواتر حملے کئے جا رہے ہیں اور ہمیں ایک ایسی جنگی کیفیت میں الجھایا جا رہا ہے جو کسی طرح سے بھی ہمارے مفاد میں نہیں ہے۔ یہ ایک نئی صورتِ حال ہے جو اس سے پہلے کبھی دیکھی نہیں گئی ۔افغانستان سے ہمارے کئی معاملات پر اختلافات رہے ہیں لیکن فوجی حملوں کی نوبت کبھی نہیں آئی تھی کیونکہ اس زمانے میں افغانستان پر بھارتی اثرو رسوخ اس طرح نہیں تھا جس طرح آج کل دیکھا جا رہا ہے۔بھارت ایک ایسا ملک ہے جو افغانستان کے راستے دھشت گردی کو اپنے و دونوں ہاتھوں سے ہوا دے رہا ہے تا کہ پاکستان میں آگ کے شعلے بڑھکائے جا سکیں۔
افغانستان میں بھارت نے ڈیرے جمائے ہوئے ہیں اور وہاں پر اس کا کام اس کے سوا اور کوئی اور نہیں کہ وہ پاکستان میں انتشار اور بد امنی کو ہوا دے اور افغانی قیادت کے دلوںمیں پاکستان کے بارے میں بغض و عناد اور نفر ت کو جنم دے۔ اکھنڈ بھارت کا وہ خواب جو اس کے بڑے پورا نہیں کر سکے تھے وہ اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں اور ان کی نظر میں اس کا بہترین راستہ افغانستان سے ہو کر گزرتا ہے۔اکھنڈ بھارت سدا سے بھارتیوں کی کمزوری رہا ہے کیونکہ پاکستان کا قیام گائو ماتا کے ٹکرے کرنے کے مترادف تھا لہذا وہ اس کو یکجا کرنا چاہتے ہیں۔اس خواب کی تکمل کی خاطر بھارت نے جاسوسوں کی ایک فوج ظفر موج تیار کر رکھی ہے جس کا واحد مقصد پاکستان کو عدمِ استحکام سے دوچار کرنا ہے۔اسی سلسلے میں بھارت نے اپپنے انتہائی چالاک اور اہم جاسوس کلبھوشن یادیو کو یہ مشن سو نپا تھا کہ اس نے بلو چستان میں علحیدگی پسندوں کے ساتھ مل کر پاکستان کے حصے بخرے کرنے کا کام سر انجام دینا ہے ۔ اسے بڑی مشکلوں سے گرفتار کیا گیا اور قانون کے شکنجے میں جکڑ کر سزائے موت سنا ئی گئی تو پورے بھارت میں کہرام مچ گیا کیونکہ وہ اس کی توقع نہیں کر رہے تھے۔،۔
پاکستان کی فوجی عدالت نے کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنائی تھی جس کی توثیق آرمی چیف نے بھی کر دی تھی لہذا سوال اس پر عملداری کا تھا جو اپنے وقت پر ہو جانی تھی۔بھارت کو اس بات کا علم تھا کہ کلبھوشن یادیو فوجی ہاتھوں میں ہے لہذا اس کا بچنا ناممکن ہے ۔ کلبھو شن یادیو کوچالیس دن کے اندر رحم کی اپیل کرنے کا استحقاق حاصل تھا لیکن اس ڈیڈ لائن کے ختم ہونے سے پہلے ہی بھارتی حکومت نے عالمی عدالتِ انصاف میں اپیل دائر کر دی حالانکہ اصولی طور پر وہ اس معاملے کو وہاں اٹھا نے کی مجاز نہیں تھی۔عالمی عدالت انصاف کو اس کا حق حاصل نہیں تھا کہ وہ اس مقدمے کی شنوائی کرتی کیونکہ جب تک دونوں فریق راضی نہ ہوں مقدمہ پر کاروائی نہیں کی جا سکتی لیکن عالمی عدالتِ انصاف نے پاکستان کی منشاء اور رائے جانے بغیر ہی اس کی شنوائی کا فیسلہ کر لیا جو عالمی اصولوں کی خلاف ورزی ہے ۔بہت سے وکلاء کا موقف یہ ہے کہ پاکستان کو عالمی عدالتِ انصاف کا بائیکاٹ کردینا چائیے تھا تا کہ عدالت کسی بھی قسم کی کاروائی کرنے سے قاصر ہو جاتی لیکن حکومت نے وکلاء کے اس موقف پر جم کر کھڑے ہونے کی بجائے عالمی عدالتِ انصاف میں اپنا وکیل بھیج کر سارا مقدمہ ہی خراب کر لیا ۔حکومت کو شائد عالمی دبائو تھا کہ وہ اپنا وکیل بھیجے تا کہ کلبھوشن یادیو کو ریلیف دیا جائے ۔بہت سی باتیں پسِ پردہ ہوتی ہیں جن کا علم بعد میں ہوتا ہے اور اسی کو بیک ڈور ڈپلومیسی کہتے ہیں۔پاکستانی حکومت نے کس کے دبائو میں میں عالمی عدالتِ انصاف میں اپنا نقطہ نظر پیش کیا بعد میں ظاہر ہو جائے گا کیونکہ اس وقت ساری چیزیں گڈ مڈ ہو چکی ہیں۔میاں محمد نواز شریف کی حکومت نریندر مودی کے بارے میں سافٹ کارنر رکھتی ہے اور چند دن قبل وزیرِ اعظم نریندر مودی کے مشیر جندال کے خفیہ دورے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا نا چائیے۔اس دورے کے کیا مقاصد تھے ابھی تک واضح نہیں ہوئے لیکن عالمی عدالتِ انصاف میں کلبھوشن یادیو کے مقدمے کی کاروائی سے اس کے ڈاندے اس سے جا کر ملتے محسوس ہوتے ہیں۔پاکستانی موقف سننے کے بعد عالمی عدالتِ انصاف نے فیصلہ بھارتی موقف کے حق میں دیدیا ہے جس سے پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کلبھوشن یادیو ایک ایسا بھارتی جاسوس ہے جو پچھلے کئی سالوں سے پاکستان میں دھشت گردی میں ملوث ہے ۔ اس کی گرفتاری پر بھارتی حکومت نے جس طرح کا ردِ عمل دیا تھا وہ بڑا ہی جارحانہ تھا۔وزیرِ خارجہ سشما سراج تو کلبھوشن یادیو کی سزا پر دھمکیوں پر اتر آئی تھیں۔وہ پاکستان کو سبق سکھانے کی باتیں کر رہی تھیں ۔وہ پاکستان پر حملہ کرنے کی باتیں کر رہی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر کلبھوشن یادیو کی سزا پر عمل در آمد کیا گیا تو اس کے انتہائی سنگین نتائج نکلیں گے ۔اس کا کہنا تھا کی بھارت ایک عالمی طاقت ہے اور کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ اس کے بیٹے کو کوئی سزا دے سکے ۔کلبھوشن ایک ڈیلومیٹ ہے اور اس کی حفا ظت بھارتی حکومت کی ذمہ داری ہے اور بھارتی حکومت اس ذمہ داری کو ہر حال میں پورا کریگی۔
پاکستان میں اس سے قبل بھی کئی جاسوس پکڑے گئے تھے اور ان کی رحم کی اپیلیں کئی سالوں تک صدرِ پاکستان کے دفتر میں التوا میں پڑی رہی تھیں ۔یہ آصف علی زرداری کے عہدِ صدارت میں بھی ہوا تھا اور جنرل پرویز مشرف کے عہدِ صدارت میں بھی ہوا تھا۔ہم نے اس سکھ کو بھی واپس بھارت بھیج دیا تھا جس نے کھلے عام جاسوسی کا اعتراف کیا تھا۔کمزور قوموں کا یہی مسئلہ ہے کہ وہ بر وقت فیصلے کرنے سے قاصر ہوتی ہیں لیکن اس دفعہ معاملہ مختلف نظر آ رہا تھا کیونکہ اس دفعہ سزائے موت میں پاکستانی آرمی ملوث تھی اور آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے اعلان کر رکھا تھا کہ کلبھوشن یادیو کے ساتھ کسی قسم کی کوئی نرمی نہیں برتی جائیگی ۔جو جاسوس ہے اس کی سزا موت ہے اور فوج اس سزا میں کسی قسم کی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کریگی ۔سپہ سالار کا کہنا تھا کہ ہم بھارتی دھمکیوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائیگا ۔ جس کو جو کرنا ہے وہ کر لے ہم اپنے قانون کے تحت جاسوس کی سزا پر عمل در آمد کرکے دکھائیں گے ۔کیا دنیا میں کسی کو اس بات کی اجازت ہو تی ہے کہ وہ دوسرے ملکوں میں انتشار اور تحریب کاری کو ہوا دے اور سزا سنانے کے بعد اسے معافی دے کر رہا کر دیا جائے ؟ یہ پاکستان کی سلامتی کا معاملہ ہے لہذا اس پر عملدر آمد یقینی بنایا جائے گا۔بھارت کو اچھی طرح سے علم تھا کہ پاک فوج اس سے قبل بہت سارے دھشت گردوں کی سزا پر عمل در آمد کر چکی تھی لہذا کلبھوشن یادیو کا بچنا ناممکن تھا اس لئے وہ اندر سے سہمی ہوئی تھی۔
البتہ اس سزا سے بچنے کا ایک محفوظ راستہ یہ تھا کہ مقدمہ کو عالمی عدالتِ انصاف میں لے جا یا جاتا تا کہ وہاں سے سزا کو رکوائے جانے کی سازش کی جاتی ۔ عالمی عدالتِ انصاف نے جو حکمِ امتنائی جاری کیا ہے اب یہ اس کی صوابدید پر ہے کہ وہ اسے کتنی دیر تک حکمِ ا امتہنائی کے زمرے میں رکھتی ہے ۔ عالمی عدالتِ ا نصاف میں یہ پاکستان کی بہت بڑی شکست ہے جس کے دھشت گردی کی جنگ پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ عدالتی فیصلے کے بعد حکومتِ پاکستان کے ہاتھ باندھ دئے گئے ہیں لہذا اب وہ اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتی۔اب وہ عالمی عدالتِ انصاف کے رحم وکرم پر ہے وہ جیسا حکم دے گی اسی کے مطابق عمل ہو گا۔پاک فوج کو بھی ایک کونے میں دھکیل دیا گیا ہے ۔اب وہ بھی بے بسی سے سب کچھ دیکھنے پر مجبور ہو گی۔شائد دنیا کے کچھ بڑے یہی چاہتے تھے کہ کلبھوشن یادیو کو پھانسی کے پھندے سے دور رکھا جائے ۔ان کی منصوبہ بندی کامیابی سے ہمکنار ہو گئی ہے لیکن اس کی قیمت پاکستان کو ادا کرنی پڑ رہی ہے۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال