تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم بیشک، آج سب کے علم میں یہ بات آچکی ہے کہ اِن دِنوں پاکستان میں ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر الیکشن کا موسم آیا گیا ہے جو ہر ووٹر کے دروازے پر دستک دے رہاہے،جبکہ رواں حکومت کی فرینڈلی اپوزیشن پاکستان پیپلز پارٹی سمیت پاکستان تحریک اِنصاف بالخصوص اور بالعموم مُلک کی دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے لیڈرانِ وقت اپنی کردہ اور ناکردہ خدمات اور مایوسیوں کا علمِ خوشنما تھامے ایک دوسرے کوبُرابھلا کہنے میں مصروف ہیں ، مُلک میں عوامی سطح کے اجتماعات ہوں یا بین الاقوامی فورمز کی کوئی تقریب وہاںنواز، زرداری اور عمران و دیگراِن میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس نے کہیں بھی ایک دوسرے پر اِلزام تراشیاں نہ کیں ہوں اور اپنے گلے پھاڑ پھاڑ کر سامنے والے کی ذاتی اورسیاسی کردار کشی کرنے میں مانندِ قیچی چلتی اپنی زبانیں روکیں ہوں ،الغرض یہ کہ آج جِس کو جب اور جہاں موقع مل رہاہے وہ کبھی اپنی خوش فہمی توکہیں اپنی محرومیوں کا رونا،رونا شروع کردیتاہے،اور مُلک میں عوام اور اپنے حلقے کے ووٹرز سے گرگٹ کی طرح رنگ اور آنکھیں بدلنے والے حکمران اور مُلک بھر میں سیاسی اور مذہبی و سماجی لحا ظ سے ہر بڑی چھوٹی جماعتوں اور تنظیموں کے جیدسیاسی پینترے سازاور چالباز رہنماو ¿ں اور کارکنان کی ایک موج موجودہے کہ جو اپنی عوامی خدمات وہمدردیوں کے ساتھ ساتھ مُلک کو ترقی و خوشحالی اور تعمیرنو کی راہوں پر لے جا نے والے دعووں اور وعدوں کی ایک لمبی چوڑی فہرستوں کابنڈل اُٹھائے دردر کی خاک چھانتی چاکِ گریبان کرتی ، اپنی جوتیاں رگڑتی مُلک کے شہر شہر اور گا و ¿ں گاو ¿ں جا کر اپنے حلقے کے معصوم ووٹروں کے سامنے اپنا سیاسی منجن بیچنے میں مصروف ہے گویا کہ یہ سب سیاسی بازی گر ہمیشہ کی طرح ایک مرتبہ پھر اپنے حلقے کے ووٹرز کو اِن کی خستہ و زبوحالی اور کسمپرسی کو چٹکی بجاتے ہی ختم کردینے کے دعووں اور وعدوں کاسیراب نما خواب دِکھانے میںمگن ہیں اور جھوٹ کے بلندو با نگ دعووں اور وعدوں کے پلندوں کو اپنے سروں اور کاندھوں پہ اُٹھائے پھررہے ہیںاِسی موقع ِ کے لئے شاعرنے کیا خوب کہا ہے کہ:۔
کسی کے لب پہ الیکشن کی انتخاب کی بات کسی کی بزمِ طرب میں ہے احتساب کی بات کوئی یہ کہتا ہے یارانِ مُلک و مِلت سے یہ دور نو ہے کرو سبز انقلاب کی بات
تاہم آج گزشتہ انتخا بات کی طرح ن لیگ ، پی پی پی اور پی ٹی آئی والے چاہے جتنے دعوے اور وعدے کرلیں، مگرعوام اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اگلے انتخابات میں بھی اِن کی دامن میں لوڈشیڈنگ، بھوک و افلاس ، مجبوری اور تنگدستی اور لاچارگی اور بنیادی حقوق سے محرومیوں کے سوا کچھ نہیں آئے گا سواِس بار عوام کو موسم الیکشن کے آخری روز یعنی کہ اپنا ووٹ ڈالنے سے پہلے اپنا احتساب خود کرنا ہوگا کہ اُسے کیا کرنا ہے۔
خیر ،اَب کچھ بات ہو جا ئے گزشتہ دِنوں چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ہونے والے دوروزہ اجلاس ون بیلٹ اینڈ روڈ(ایک پٹی ایک شاہراہ (اوبور) فورم برا ئے بین الاقوامی ترقی اوراِس میں پاکستان اور چین کی ذمہ داریوں کے بعد خطے میں مستقبل قریب میں ترقی و خوشحا لی کے کھلنے والے جدید اور نئے ابواب سے پیداہونے والی تابناک اور روشن راہوں کی اِس میں کوئی شک نہیں کہ اِس اجلاس میں شریک دنیا کے29 سربراہانِ مملکت اور حکومتوں اور دنیا کے 130سے زائد ممالک اور چین کے تعاون سے پاکستان پر کتنی کرم نوازیاں اور نوازیشیں کی گئیں ہیںاَب یہ تو آنے والے دِنوں ، ہفتوں ، مہینوں اور سالوں میں لگ پتہ جا ئے گا مگر فی الحال اتنا ضرور ہے کہ اِس اجلاس میں چین کے تعا ون سے پاکستان کو اتناکچھ ملا ہے کہ جس کا گمان بھی نہیںکیا جاسکتا ہے،مگرپھر بھی ہمیںچین پر مکمل انحصارکرنے سے پہلے اپنے پیروں پر بھی ایک بار ضرورکھڑاہوناہوگا ورنہ…؟؟ہم نہ صرف خطے بلکہ دنیا بھر میں ایک بیکار اور مفلوج قوم بن کر زندہ رہیںگے اور لاچارگی اور بے بسی اور بیکسی ہمیشہ ہمارا مقدر رہے گی۔
تاہم اِسی کے ساتھ ہی اَب اِس میں کسی کو کسی قسم کے ابہام اور شک و شبہ میں غوطہ زن ہونے اور سوچنے سمجھنے کی بھی کوئی گنجا ئش باقی نہیں رہ گئی ہے کہ اِن دِنوںخطے میں بڑھتی پاکستان چین دوستی اور دونوں ممالک کے مضبوط ہوتے اقتصادی و معاشی اور سیاسی تعلقات سے خائف یا خوفزدہ بھارت سخت پریشان دکھا ئی دیتا ہے حالانکہ اِسے اپنی خودساختہ پریشانیوں اور اُلجھنوں میں مبتلا ہونے کی ضرورت تو نہیں ہے مگر اَب اِس کا کیا جا ئے ؟؟جو کسی کی ترقی اور خوشحالی سے جلتا ہواور حاسدین کی فہرست میں درجہ اول کا کمینہ ہو۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ پہلے ہی کیا کچھ یہ کم تھاکہ بھارت کی آنکھ میں گوادر پورٹ اور سی پیک کا منصوبہ سوئی کی طرح چبھ رہا تھا مگر اَب اِس کے ہاتھ سوا ئے جلنے اور کڑہنے اور کفِ افسوس اور پچھتاوے کے کچھ بھی نہیں رہاہے اپنی خودساختہ تکالیف کا شکار بھارت اپنی فطرت اور عادت کے ہاتھوں احساس ِ محرومی اور تنگ نظری کا شکار ہے اگرچہ موجودہ حالات میں اپنی اِس کیفیت کا ازالہ بھارت پاک چین دوستی اور ون بیلٹ اینڈ روڈ(ایک پٹی ایک شاہراہ (اوبور) فورم برا ئے بین الاقوامی ترقی کا خود بھی حصہ بن کر اپنا بھی ایک اہم روال ادا کرسکتاہے ورنہ ، کوئی شک نہیں کہ بھارت کا یہ اکڑپن اور حاسدین والا رویہ نہ صرف خطے بلکہ ساری دنیا میں اِس کی رسوا ئی اور تباہی و بربادی کا سبب بھی بن سکتا ہے راقم الحرف کی یہ مندرجہ بالاسطور خاص طور پربھارت میں تین سال قبل 16مئی کے روزاقتدار کا منصب سنبھالنے والی بھارتی انتہاپسندتنظیم بی جے پی کے سربراہ نریندرمودی کی بند آنکھیں کھولنے اور خطے کے زمینی حقا ئق کو مدِنظررکھتے ہوئے اِسے مثبت اور تعمیری فیصلے کرنے کی جا نب رغبت دلانے کے لئے کا فی ہیں اگر اَب اِس کے بعد بھی نریندرمودی کی سمجھ میں کچھ نہ آئے تو پھراِسے سوا ئے مودی کے جنگی جنون کے اورکیا کہا جاسکتاہے جبکہ اُدھر اِسی جنگی جنون میں مبتلا مودی کو اپنے بندر کلبھوشن یادیوکے معاملے کو عالمی عدالت میں لے جا نے پر عبوری حکم سے حوصلہ افزاجواب ملاہے مجھ سمیت اکثر کا عالمی عدالت سے یہی خدشہ تھاکیو نکہ عالمی عدالت ایک جانبدارعدالت ہے۔ختم شُد
Azam Azim Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com