تحریر : علی عمران شاہین بالآخر وہی ہوا، بھارت عالمی حمایت سے ہمارے ملک میں دہشت گردی کا بازار گرم کر کے ہمارے بے شمار لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے اپنے دہشت گرد کلبھوشن یادیو کا مقدمہ لمبا کرنے میں کامیاب ہو گیا۔جی ہاں،وہی بھارت جس کے خلاف ہم اگست 1999 میں رن کچھ میں ہم اپنی ہی حدود میں اپنی بحریہ کا طیارہ گرانے اور 6اعلیٰ افسران سمیت 22اہلکار شہید کرنے کا مقدمہ لے کر گئے تھے تو بھارت نے وہاں جانے سے انکار دیا تھا کہ کوئی ملک عالمی عدالت جانے کا پابند نہیں تو ہم کیوں جائیں اور پھر عالمی عدالت نے ہمارا مقدمہ سننے سے انکار کر دیا تھا۔ہم تب بھی ہارے تھے اور ہم آج بھی ہارے ہیں۔آخر کیوں؟ یہ کون سوچے گا؟ایک طرف یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو دوسری طرف وطن عزیز کے رقبے کا43فیصد حصہ رکھنے والے صوبہ بلوچستان میں گزشتہ ہفتے کی پے در پے دہشت گردانہ وارداتوں نے ہر کسی کو حیرت زدہ کرنے کے ساتھ انتہائی غمزدہ بھی کر دیا ہے۔
کوئٹہ سے تھوڑے ہی فاصلے پر واقع شہر مستونگ میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ جناب مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے پر اس وقت حملہ ہوا جب وہ ایک مدرسے میں تقریب کے بعد واپسی کے لئے روانہ ہوئے تھے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق کم از کم 30افراد جام شہادت نوش کر چکے ہیں جبکہ درجنوں زخمی ہیں۔ اس کے اگلے ہی روز سی پیک کے مرکزی مقام گوادر میں ترقیاتی کاموں میں مصروف صوبہ سندھ کے باسی 10مزدوروں کو گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا۔ ان شہداء میں 3 سگے بھائی بھی شامل ہیں۔ ان بڑے واقعات کے ساتھ سکیورٹی فورسز اور عوام پر بھی کچھ چھوٹے حملے ہوئے توساتھ ہی چمن سرحد پر افغان فورسز کی گولہ باری بھی ہو چکی ہے جس میں 10شہری شہید ہوئے تھے۔ اسی دوران میں ایران کے آرمی چیف اور ایک دوسرے اعلیٰ افسر نے پاکستان کو براہ راست حملے کی سنگین دھمکیاں بھی دے ڈالیں۔ یہ سارے واقعات عین اس وقت پیش آئے جب وزیراعظم جناب نوازشریف چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ کے ساتھ دنیا کے سب سے بڑے آبادیاتی ملک چین کے دورے پر روانہ ہونے والے تھے، جہاں’ ون بیلٹ ون روڈ ‘کے حوالے سے عالمی کانفرنس انعقاد پذیر ہونا تھی۔ اس کانفرنس میںدنیا کے 30کیلگ بھگ ممالک کے سربراہان حکومت یامرکزی عہدیدارشریک ہوئے۔
کانفرنس کا مقصد واضح تھا کہ چین پاکستان کے راستے گوادر تک جو اقتصادی راہداری بنا رہا ہے، اس کے حوالے سے دنیا کو اعتماد میں لے کر دنیا کا میل ملاپ بڑھایا اور اس کی وسعت کو پھیلا کر باقی دنیا تک پہنچایا جا سکے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اتنے بڑے عالمی فورم پر بھارت جیسا ملک شریک نہیں ہوا کیونکہ اس کی ایک ہی کوشش ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ قطعی کامیاب نہ ہو سکے۔ اسی لئے تو بھارت منصوبے پر کبھی تحفظات کا اظہار کرتا ہے تو کبھی چین کو متنبہ کرتا ہے کہ وہ جس خطہ کشمیر سے سڑک گزار رہا ہے وہ تو متنازعہ ہے، لہٰذا اسے یہ کام نہیں کرنا چاہئے۔ بھارت نے چین میں ہونے والی حالیہ کانفرنس سے پہلے بھی وہی باتیں کیں اور کوشش کی کہ چین کو اپنے دبائو میں لائے جس میں وہ اب تک ناکام رہا بلکہ الٹا خود تنہائی کا شکا ر ہو گیا۔قبل ازیں بھارت نے گوادر بندر گاہ کا توڑ کرنے کے لئے ایران کے ساتھ تعلقات بڑھائے تھے اور پاکستان کو زچ کرنے اور افغانستان کو بھی دام اور مٹھی میں رکھنے کے لئے ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کا ڈول ڈالا تھا۔بھارت کی وہ ساری رام کہانی اب تک تو ناکام ہی نظر آ رہی تو بھارت نے اگلا اقدام کرتے ہوئے مائع گیس خلیج کے عرب ملکوں کو چھوڑ اور معاہدے توڑ کر ایران سے خریدنے کا اعلان کر دیا ہے اور اس کے معاہدے ہوئے ہیں۔ صورتحال اور حالات و واقعات تو واضح ہیں لیکن اب بھی کچھ لوگوں کو شک و شبہ لگتا ہے۔ ایران کے پاکستان کے ساتھ ملنے والے سرحدی علاقے میں اپریل کے اختتام پر اس کے چند اہلکار مارے گئے تو ایران نے سارا دبائو پاکستان پر ڈالنا شروع کر دیا، حتیٰ کہ پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکیوں کے ساتھ خود پاکستانی سرحد میں گھس کر حملہ کی بھی دھمکی دے دی گئی۔ وہی ایران جس کی آئے دن کی سرحدی گولہ باری کی زد میں آ کر کئی بار پاکستانی شہری جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں لیکن پاکستان نے کبھی اس طرح کے ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔
یہی نہیں، ایرانی بحریہ کے لوگ پاکستانی ماہی گیروں پر بھی گولیاں برساتے، انہیں گرفتار بھی کرتے رہتے ہیں۔ ایران کی جانب سے معمولی بات پر سرحد بند کر دی جاتی اور پاکستانی برآمدات کو روک دیا جاتا ہے۔ ایران سے سمگل ہو کر آنے والے ڈیزل و پٹرول کی فروخت سے پاکستان کو ماہانہ اربوں کا نقصان ہو رہا ہے لیکن پاکستان یہ سب کچھ اس لئے خاموشی سے برداشت کر رہا ہے کہ ایران ہی وہ ملک ہے جس نے اسے سب سے پہلے تسلیم کیا تھا اور اقوام متحدہ میں اس کی رکنیت کی سب سے پہلے حمایت کی تھی، ایران کے ساتھ دیگر رشتوں کے علاوہ طویل سرحد کا تعلق بھی ہے۔ پاکستان کا یہ رویہ ہمیشہ ہی قابل تعریف رہا ہے اور ہونا بھی ایسے ہی چاہئے کہ ہمیں اپنے پڑوس میں جب بھارت جیسے ازلی و ابدی اور انتہائی بدطینت دشمن کا سامنا ہے تو ہمیں کسی اور ملک کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کرنے چاہئیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ افغانستان ہو یا ایران یا بلوچستان کی حالیہ دہشت گردی، سب کے پیچھے اصل سانپ بھارت ہی ہے اور ہمارے ہاں بیٹھے حکمران اور لگ بھگ سبھی سیاستدان اس دشمن کو پہچاننے اور اس کے خلاف کھل کر میدان میں آنے سے نجانے کیوں خوفزدہ ہیں۔ ایک زمانے سے بھارت پاکستان میں چینی منصوبے اور خصوصاً اقتصادی راہداری کو ختم کرانے میںناکام رہاتو اب اس نے بلوچستان کو خصوصی طور پر اس انداز سے ہدف بنایا کہ سارا منصوبہ تلپٹ ہو جائے اور دنیا اس سے خوفزدہ ہو کر اس سے منہ موڑ لے۔ سچ تویہ ہے کہ بھارت ہمیں عالمی سطح پر تنہا کرنے کی تو ساری کوششوں میں خدائی مدد و تائید سے ہی ناکام ہوا ہے لیکن ہم اسے اپنا دشمن ماننے میں ناکام ہوئے ہیں۔ اس وقت بھارت ہمارے ہاں دہشت گردی کے بڑے مشن پر متعین اور اسے انجام دینے والے بھارتی ہیرو کلبھوشن کو بچانے کے لئے عالمی عدالت ”انصاف” تک پہنچ چکا ہے جس کے دائرہ اختیار میں ہم آتے ہی نہیں لیکن ہم بھارت کو دشمن ماننے پر تیار نہیں۔
چند روز پہلے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے کھل کر اعتراف کیا کہ ان کی ساری قوت اور تحریک کے پیچھے بھارت ہی کے مقاصد، معاونت اور تعاون تھالیکن حکمران و سیاستدان پھر بھی بھارت کے حوالے سے منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے ہیں۔ آخر وہ دن کب آئے گا جب ہم بھارت کو اپنا دشمن سمجھیں گے اور اس کے خلاف ساری دنیا میں اس جیسی نہ سہی، اس کے مقابلے میں 10فیصد ہی سہی وطن سے مخلصانہ، محبانہ پالیسی ترتیب دیں گے۔ اللہ کے فضل سے اب ہم دنیا میں بہت اہم مقام پر کھڑے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بھارت کے ہاتھ پائوں پھولے ہوئے ہیں،ا اس نے اسی وجہ سے پوری تندہی کے ساتھ عالمی” عدالت انصاف”سے فوری کلبھوشن معاملہ پر سماعت شروع کروا دی وگرنہ تو یہ عدالت سالہا سال مقدمے کو اپنے پاس لینے کا فیصلہ ہی نہیں کرتی۔ پاکستان اس وقت مسلم دنیا کے عسکری اتحاد کا سرخیل ہے۔
چین اور دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ اس کے تعلقات کی نوعیت پہلے سے کہیں بہتر ہے۔ چین تو بار بار اقوام متحدہ میں پاکستان کے خلاف آنے والی قراردادوں کو ایسے ہی ویٹو کر رہا ہے جیسے امریکہ، برطانیہ یا روس اسرائیل کے خلاف آنے والی قراردادوں کو ویٹو کرتے رہے ہیں اور اب بھی کرتے ہیں۔ ان حالات میں ہمیں اس وقت کو صحیح طور پر استعمال کرنا ہے اور بھارت کو ہر جگہ شکست دینے کی سنجیدگی کے ساتھ کوشش کرنی ہے۔ اگر ہم بھارت کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے تو پھر اللہ کے فضل سے کوئی طاقت پاکستان کو عالمی طاقت بننے سے نہیں روک سکتی اور افغانستان و ایران پھر سے پاکستان کے دوست ہی ہونگے۔ اس بھارت کے مقابلے کے لئے ہمارے پاس مسئلہ کشمیر جیسا ایشو موجود ہے جہاں کشمیریوں نے تاریخ انسانی کو پلٹتے ہوئے جرأت و عزیمت اور پاکستان سے دوستی، وفا کی وہ لازوال داستان رقم کی ہے کہ جس کے بعد ہمیں ایک لمحہ چین سے نہیں بیٹھنا چاہئے اورمقبوضہ کشمیر سے بھارت کو نکالنے کے لئے ساری صلاحیت صرف کر دینی چاہئے۔ وہ کام جو ہمارے کرنے کے تھے، وہ سارے کشمیریوں نے کر کے دکھا دیئے۔ اب ہم نے آخری وار کرنا ہے تبھی اقتصادی راہداری سمیت تمام منصوبے کامیابی سے ہمکنار ہوں گے اور خطرات کا ہمیشہ کے لئے تدارک ہو سکے گا۔
Ali Imran Shaheen
تحریر : علی عمران شاہین (برائے رابطہ:0321-4646375)