تحریر: عارف رمضان جتوئی، کراچی اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں ایک حساس دل دے کر بھیجا ہے۔ غمی و خوشی، دکھ و درد تمام قسم کے احساسات سے مزین اس دل میں محبت اور نفرت بھی رکھ دی گئی۔ اچھے اور برے سے بھی دل کی کیفیت لاعلم نہیں رہتی۔ جب بھی کوئی اچھائی انسان کو پہنچتی ہے تو گویا اس کا انگ انگ دل کے ذریعے خوشی سے سرشار ہوتا ہے اور وہیں جب اسے دکھ اور تکلیف ملتی ہے تو دل کا انجن اسے مکمل احساسات کے ساتھ محسوس کرتا ہے اور پورے جسم کو اس کی اطلاع فراہم کرتا جس سے دماغ بھی بری طرح متاثر رہتا ہے۔ اکثر سننے کو ملتا ہے کہ پریشانی اور تکلیف کے باعث انسان کا دماغ کام تک کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ دل کی جانب سے تکلیف سے مزین اطلاعات دماغ کو متاثر کررہی ہوتی ہیں۔
یہی وہ دل ہے کہ جو اچھی اور بری کیفیت سے بنیادی طور پر انسانی جسم کی ایکٹیوٹی کو مفلوج یا متحرک رکھتا ہے۔موجودہ دور کے لحاظ سے دل و دماغ پر خوشیاں کم اور غموں کے بسیرے کچھ زیادہ ہوچکے ہیں۔ ہر پہلا شخص کبھی خوشی اور کبھی غم کے ملے جلے رجحان کا شکار ہے۔ پریشانیوں میں مبتلا شخص پر پریشانیاں نہ صرف اس کی ذاتی زندگی کو ڈسٹرب کر رہی ہیں بلکہ اس کی ذات سے جڑے ہر شخص پر ان کایکساں اثر مرتب ہوتا ہے۔ گویا پریشانیوں سے جسم کے ساتھ ساتھ فیملی اسٹرکچر بھی بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ اس لیے اس کا حل اور اس سے جلد چھٹکارہ بھی بہت ضروری ہے۔
عموما کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے سب سے پہلے اس کے متعلق لائحہ عمل تیار کیا جائے جس کے ذریعے اس کے اچھے اور غیر اچھے تمام پہلوں پرنظر ڈالی جائے۔ وہ کون سی بنیادی وجوہات ہیں جو ایک انسان کے دل سے اس کا سکون چھین لیتی ہیں۔ جب آپ کویہ معلوم ہوجائے گا کہ تو ان وجوہات کو ختم کرنے کے لیے بھی کوئی ممکنہ لائحہ عمل تشکیل دیا جاسکے گا۔ اس کے بعد انہیں ہر ممکن حد تک ختم کریں یا پھر اگر اپنانے والے کام ہیں تو انہیں کوشش کریں کہ زیرو سے ایک اور ایک سے دو کر کے اپناتے جائیں۔ اس طرح ایک دم سے بوجھ بھی نہیں پڑتا اور انسان اپنے شب و روزمیں ایک منفرد تبدیلی بھی رونما کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
ایک بنیادی نقطہ ہر شخص کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت کمزور پیدا کیا ہے۔ اس کی واضح مثال قرآن کریم میں موجود ہے۔ ” اللہ چاہتا ہے کہ تمہارا بوجھ ہلکا کر دے اور انسان کو بہت کمزور پیدا کیا گیا ہے۔( القرآن: 4:28)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ الہ وسلم جب بھی دعا مانگا کرتے تھے تو فرماتے تھے کہ ”اے اللہ آپ بہت قوی ہیں اور ہم بہت کمزور ہیں“۔ یہیں وہ کمزوری ہے کہ انسان بہت سی جگہوں پر غلطیاں بھی کرتا ہے اور بہت جلد پریشان اور مایوسی بھی ہوجاتا ہے۔ مایوسی کے بارے میں قرآن کریم نے باقاعدہ ارشاد فرمادیا کہ ”بیشک مایوسی کفر ہے“۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی نصرت سے انسان مایوس ہوجاتا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ انسان کو اب مشکلات اور پریشانیوں سے کوئی نہیں نکال سکتا۔ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو بھی بھلا بیٹھتا ہے۔ جس کی وجہ سے مایوسی کے لیے کفر کا لفظ کہا گیا ہے۔
مایوسی وہ ہے کہ جو انسان سے اس کا سکھ چین اور سکون چھین لیتی ہے۔ انسان کے پاس موجود نعمتیں ہیں وہ ان کی قدر کرنا بھی چھوڑ دیتا ہے۔ حالانکہ ایک شخص پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے بے شمار انعامات کیے گئے ہیں۔ مگر شیطان ایسا چاہتا ہے کہ انسان کبھی بھی سکون سے نہ رہے اور وہ اپنے روز مرہ کی پریشانیوں کی وجہ سے اللہ کے ذکر سے دور ہو جائے۔ ایسے بے شمار افراد دیکھے ہیں جو کبھی بہت اچھے اور نیک ہوا کرتے تھے مگر جیسے جیسے وہ اپنی پریشانیوں میں گھرتے گئے عبادات سے دور ہوتے گئے اور پھر شیطان کے شکنجے میں جکڑتے گئے۔ شیطان ہمیشہ انسان کو لمبی لمبی خواہشیں پیدا کر کے الجھائے رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے پریشان ہونے اور بے سکونی کے خاتمے کا حل بھی بتا دیا ہے۔ دلوں کے خالق نے ہم پر کتنا احسان کیا ہے ہمارے دلوں کا اطمینان اپنے ذکر میں رکھ دیا ہے۔ ترجمہ: ” جان لو کہ اللہ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔“ پس اپنے دل کے اطمینان و سکون کے لیے ہمیں اللہ کے ذکر سے دل لگانا ہوگا۔ قرآن کریم ذکر بھی ہے، ہمارے دلوں کی بیماریوں کی شفا بھی۔ ہمارے لیے ہدایت اور رحمت بھی ہے۔ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا کہ ترجمہ : ”لوگو تمہارے پروردگار کی طرف سے (قرآن کی شکل میں) نصیحت اور دلوں کی بیماریوں کی شفا اور مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت آپہنچی ہے۔“ ذکر اللہ کیا ہے اس بارے میں بتا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ”نماز قائم کرو میرے ذکر کے لیے ۔“گویا اللہ کا ذکر نماز پڑھنے میں ہے۔ ارے مومن بندے کو دل کے اطمینان و سکون کے لیے اور کیا چاہیے۔
اب وہ لوگ جو اللہ کے ذکر سے اعراض کرتے ہیں منہ موڑتے ہیں اور وہ اللہ کی عبادت سے جی چراتے ہیں۔ یہ ایک اہم نقطہ ہے کہ جس پر غور کرنا ہوگا۔ آج ہم ان تمام مسائل میں گرے ہوئے ہیں۔ ہم سب معاشی طور پر پریشان ہیں اور اس مہنگائی کے دور میں ہر فرد کمائی میں لگا ہوا ہے مگر اس کے باوجود گھر کا گزر بسر نہیں ہوپارہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ قرآن بتا رہا ہے۔ ”اور جو میرے ذ کر سے منہ موڑے گا اس کی معیشت تنگ ہوجائے گی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے۔ وہ کہے گا پروردگار، دنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا، یہاں مجھے اندھا کیوں اٹھایا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ” ہاں، اسی طرح تو ہماری آیات کو جبکہ وہ تیرے پاس آئی تھیں، تو بھلا دیا تھا۔ اسی طرح آج تو بھلایا جا رہا ہے۔“ (سورة طہ)
بقول شاعر: وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
اس کے برعکس جو شخص اللہ کا ذکر کرتا ہے۔ عبادت کرتا رہتا ہے اور اللہ سے ڈرتا رہتا ہے اس کے لیے اللہ تعالیٰ رزق کی فروانی کردیتا ہے۔ سورہ طلاق میں ارشاد ہوا ہے کہ ” جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا اور اسے ایسے وہاں سے رزق عطا کرے گاجہاں کا اس نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔ جو اللہ پر بھروسا کرے۔ اللہ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے ۔ بیشک اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے۔ اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے“۔