تحریر : شاہد شکیل کسی کو برا منانے کی ضرورت نہیں کیونکہ سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے۔یقین کرنا مشکل ہے کہ آج کے دور میں بھی لوگ کسی نہ کسی کے غلام ہیں لیکن یہ سچ ہے کہ دنیا کے ہر خطے میں غلام موجود ہیں ،کوئی بیوی کا غلام، کوئی مال ودولت کا ،کوئی سیاسی لیڈر کا ،کوئی کسی بادشاہ کا تو کوئی کسی ملٹی میلئنر کا۔تفصیل یا تشریح کی جائے تو کالم لکھنے کی گنجائش نہیں ہو گی اسلئے ٹو دی پوائنٹ تحریر کرنا ہی بہترین حل ہے۔سب جانتے ہیں کہ ملزم کو بغیر ثبوت کے مجرم نہیں کہا جاتا ،اگرچہ دنیا کا ہر انسان کبھی نہ کبھی موقع سے فائدہ اٹھا کر جرم کرنے کے بارے میں سوچتا ہے یا کرتا ہے اور اتفاق سے بچ جاتا ہے تو اسکی ذہانت کی داد دینا پڑے گی۔مغربی ممالک میں قانون کی اجارہ داری ہے اور شاید ہی کوئی مجرم قانون کے شکنجے سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو کیونکہ قانون کے ہاتھ لمبے ہی نہیں بلکہ وسیع بھی ہیں۔
گزشتہ دنوں مکمل ثبوت کے ساتھ ایک میگزین نے عربی راجکماریوں شہزادیوں کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا کہ کیسے انہوں نے اپنے زر خرید ملازمین کو قید رکھا ،انکی شخصیت کا استحصال کیا اور کیا زیادتی کی ۔برسلز میں عربی شیخ کی بیوہ اور اسکی سات بیٹیوں نے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں پوری منزل کرایہ پر حاصل کی تاکہ کھلے عام عیاشی کی جاسکے لیکن عیاشی کیلئے انہیں ملازمین بھی درکار تھے جو چوبیس گھنٹے ہاتھ باندھے کھڑے رہیں اور ہر جائز و ناجائز بات کو سر جھکا کر قبول کریں،شیخ صاحب کی فیملی کا پول کھل گیا اور سرکاری وکیل نے سب کچھ کھول کھال کر جج کے سامنے رکھ دیا جس میں خاص طور پر قابل ذکر بات یہ تھی کہ ان مہارانیوں نے اپنے بیس ملازمین کے ساتھ انسانی سمگلنگ ،غیر انسانی اور توہین آمیز سلوک کیا جس سے ان کی شخصیت بری طرح متاثر ہوئی،گواہ کے طور پر ایک غلام لڑکی نے بیان دیا کہ مجھے ابو ظہبی میں اچھی جوب کا جھانسہ دیا گیا میرا پاسپورٹ ضبط کیا اور کچھ دنوں بعد برسلز لے آئے۔
سرکاری وکیل نے ایک موٹی فائل جج کے حوالے کی اور کہا کہ اس میں تمام ملازمین کے بیانات قلمبند ہیں جن میں باورچیوں ،خدمت گاروں یعنی روم بوائیز اور گرلز شامل ہیں جو چوبیس گھنٹے اٹینشن رہا کرتے تھے،سرکاری وکیل فلپ مورٹوکس نے کہا ذرا سی کوتاہی یا غلطی ہوجانے پر انہیں حبس بے جا رکھا جاتا ، تنخواہ پوری نہیں دیتے اور بے وقوف گائیں ،کتیاں،اور رنڈی جیسے غلیظ نازیبا الفاظات سے مخاطب کیا جاتا ،انسانی حقوق کو پامال کرنے پر فلاں فلاں قانونی شق کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر ملازم کو ڈھائی ہزار یورو ادا کئے جائیں علاوہ ازیں کئی برسوں کی تنخواہیں اور دیگر بقایاجات کی کل رقم چار لاکھ سرسٹھ ہزار یورو بھی ادا کرنے کا حکم صادر کیا جائے کیونکہ چوبیس گھنٹے کوئی انسان ڈیوٹی سر انجام نہیں دے سکتا۔ راجکماریوں کے کئی وکلاء انہیں بچانے کیلئے میدان میں کود پڑے لیکن تمام دلائل منفی اور من گھڑت ثابت ہوئے کیونکہ غلام ایک نہیں بیس افراد پر مشتمل ٹیم تھی اور سب کے پاس اپنی بے گناہی کے ثبوت تھے کہ کیسے وہ ان کے جال میں پھنسے اور کن مصیبتوں کے بعد غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے بعد اس لگژری ہوٹل سے فرار ہوئے اور پولیس سٹیشن پہنچے ۔ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا لیکن چند دنوں بعد غلام آزاد ہونگے اور مجرموں کو سزا ملے گی۔ ایسے واقعات یا مماثلت رکھتے ہوئے دنیا کے ہر خطے میں رونما ہوتے رہتے ہیں ،اعداد وشمار کے مطابق دنیا بھر میں اکیس میلین افراد غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں جن میں ماڈرن غلاموں کی تعداد گیارہ میلین سے زائد ہے اور زیادہ تر خواتین اور نوخیز لڑکیاں ہیں جبکہ دیگر غلاموں کا تعلق پرائیویٹ گھرانوں، فیکٹریز ،زراعت اور دیگر مقامات سے ہے سب سے زیادہ افسوسناک اور المناک بات یہ ہے کہ ان غلاموں کو جنسی ہوس کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔
ایسے افراد کا پتہ لگانا بہت مشکل ہوتا ہے کہ کون کس کا قیدی یا غلام ہے کیونکہ عام طور پر دونوں یعنی آقا اور غلام نارمل دکھائی دیتے ہیں اسکی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ غلام اپنے آقا کے دباؤ میں ہوتا ہے اور اسکا ہر حکم بجالانے پر مجبور ہوتا ہے اور ہر وقت اس خوف میں مبتلا رہتا ہے کہ اگر ذرا سی بھی کوتاہی ،بھول چوک یا غلطی سرزد ہوئی تو مالک اسکے چودہ طبق روشن کر دے گا ۔چند غلاموں کی بد قسمتی پر مختصر رپورٹ تیار کی گئی جیسے کہ ایک برٹش پینشنر کو عدالت میں اس لئے پیش کیا گیا کیونکہ اس نے ایک پاکستانی معذور لڑکی کو دس برس تک یرغمال بنا کر قید رکھا جس سے وہ اپنے گھر کے تمام کام کرواتا اور جنسی ہوس پوری کرنے کے بعد تہہ خانے میں بند کر دیتا ،دوسری خبر ایک عربی شہزادے کو لندن کورٹ نے تاحیات جیل کی سزا سنائی کیونکہ اس نے اپنے ملازم کو قتل کیا تھا، عرب نیوز کے مطابق ایک ڈاکٹر نے سری لنکن خاتون کے جسم سے تئیس کیل برامد کئے اور بتایا کہ فیکٹری کے عربی مالک نے اسے سزا دی کیونکہ اسے اس عورت کا کام پسند نہیں آیا،خاتون کا کہنا تھا اس نے پہلے مجھے قید رکھا اور جنسی ہوس پوری کرنے کے بعد میرے جسم کے مختلف حصوں میں کیل ٹھونک دئے،زندگی اور موت کے درمیان چند گھنٹوں کا فاصلہ رہ گیا تھا کہ میں کسی طریقے سے جان بچا کر بھاگ نکلی۔جرمن میگزین کے مطابق جرمنی میں بھی کئی لوگ غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
، باون سالہ گھانا کی خاتون نے بتایا کہ چار برس تک چیک اپ کیلئے ڈاکٹر کے پاس نہیں جا سکی کیونکہ اکیلی باہر جانا منع تھا میں ہمیشہ کام کرتی رہتی اور ایک سینٹ تک وصول نہیں کیا میرا مالک یا آقا کوئی اور نہیں میرے ہی ملک کا ایک ڈپلومیٹ ہے،ایک بار موقع ملا تو بھاگ کھڑی ہوئی۔دوہزار تیرہ میں تینتیس سالہ انڈونیشئین خاتون کو بڑی مشکل سے رہائی ملی جو ایک عربی ملٹری اٹیچی کی غلام تھی انیس ماہ تک قید میں رہنے کے بعد بھاگ نکلی ،مجرم کو جرمانے کے علاوہ پینتیس ہزار یورو ہرجانہ بھی ادا کرنا پڑا اور عہدے سے بھی فارغ کر دیا گیا۔ان چند کیسز یعنی غلاموں اور آقاؤں کی اس حقیقت کے علاوہ دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں خواتین اور معصوم بچے بھی مختلف انداز میں غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں ،بظاہر بیوی اپنے میاں سے خوش ہے لیکن وہ غلام ہے قیدی ہے ،بچوں کیساتھ ظلم وستم کی انتہا کر دی جاتی ہے جنسی ہوس پوری کرنے کے دوران ہی کئی بچوں کی اموات ہو جاتی ہیں اور اگر کوئی بدقسمت بچ گیا تو اسے قتل کر دیا جاتا ہے اور کئی جمہوری ممالک میں قانون کے رکھوالے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں ،مظلوم افراد تو غلام ہیں لیکن سمجھ سے بالاتر یہ بات ہے کہ قانون کس کا غلام ہے ؟۔