تحریر : سعد سالار کل سے ڈونلڈ ٹرمپ کے سعودی دورے پر جم کر تنقید ہو رہی ہے اور ان کے شاندار اور تاریخی استقبال پر فقرہ بازی میں ہر کوئی سبقت لینے کے پوری پوری کوشش کر رہا ہے۔
سعودی عرب ایک آزاد اور خود مختیار ملک ہے اس کی اپنی خارجہ پالیسی ہے اس کے اپنے سفارتی اور خطے کے تقاضے ہیں ۔۔۔ وہاں بادشاہت ہے اور بادشاہوں کا اپنا سٹائل ہے وہ اپنی طرح اپنی سوچ کہ.مطابق ملک چلاتے ہیں۔
سعودی عرب خود کو محفوظ بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات جو ان کی سمجھ کے مطابق بہتر ہے وہ کررہا ہے ۔۔ یہ بات یاد رہے سعودی عرب خود کو محفوظ بنانے سے مراد سعودی بادشاہت ہی سمجھ لیں کیونکہ کوئی بھی اپنی بادشاہت کو کمزور نہیں ہونے دیتا۔
سعودیہ نے خود کو محفوظ بنانے کے لیے ہی تو اسلامی اتحادی فوج بنائی ہے اور اب تاریخ کی سب سے بڑی اسلحے کی ڈیل کی ہے .سعودیہ کو اگر اپنا مفاد امریکی دوستی میں لگتا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں ان پر تنقید کرنے والے .ہم اپنے ملک میں دیکھیں ہم کیا کررہے ہیں ؟ ہماری خارجہ پالیسی کیا ہے ؟ ہمارے حکمران ہمیں محفوظ بنانے کے لیے کیا کر رہے ہیں۔
ایک بات جو قابل توجہ ہے کہ چین نے خود کو معاشی طور پر مضبوط کرنے اور خطے میں اجارہ داری کے لیے کانفرنس بلائی ہم اس میں بھی مہمان تھے . اور اب اگر سعودیہ خود کے دفاع کو نا قابل تسخیر بنانا چاہتا ہے اس کانفرنس میں بھی ہم مہمان ہیں۔
یہ ہمارے ملک اور خطے میں ہمارے محل و قوع کی اہمیت ہے کہ ایک ملک کی معاشی ترقی میں ہم ان کی مجبوری اور ایک ملک کے دفاع میں ہم ان کی مجبوری ہیں۔
مگر افسوس ہمارے حکمرانوں کی سوچ غلامانہ اور ذاتی مفاد سے آگے کی نہیں ہے. اسی وجہ سے دونوں ملکوں نے ہمیں منشی بنا کر رکھا ہوا ہے۔
اگر پاکستان کو ایک اہل ایماندار اور بے باک قیادت مل گئی تو کوئی بعید نہیں پاکستان ایک مضبوط معاشی و دفاعی حب بن کر دنیا کے نقشے پر حکمرانی کرسکتا ہے۔