واشنگٹن (جیوڈیسک) دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے مسلمان ملکوں کے مابین اتحاد پر زور دیا اور ریاض میں علاقائی سربراہ اجلاس میں شریک درجنوں عرب اور مسلمان راہنمائوں کو بتایا کہ ”یہ اچھائی اور برائی کے درمیان لڑائی ہے۔
اپنے بیرونِ ملک پہلے دورے کے دوران، ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ شدت پسندی کے خلاف اتحاد میں شامل تمام ملک یکسوئی کے ساتھ آگے بڑھیں،” تاکہ شدت پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا مقصد حاصل کیا جائے”۔
ٹرمپ نے کہا کہ ”یہ مختلف مذاہب، مختلف فرقوں یا مختلف تہذیبوں کے درمیان لڑائی نہیں ہے۔ یہ وحشی مجرموں کے ساتھ لڑائی ہے، جو انسانی زندگی اور تمام مذاہب کے معقول لوگوں کو نیست و نابود کرنے کے درپے ہیں، جب کہ مہذب لوگ انسانی اقدار کا تحفظ چاہتے ہیں”۔
صدر نے کہا کہ وہ اپنے ساتھ ”دوستی، امید اور محبت کا پیغام لائے ہیں”۔
اُنھوں نے عرب سربراہان پر زور دیا کہ وہ ”اسلام پرست انتہا پسندی” کے خلاف لڑائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، اور موجودہ اور آئندہ نسلوں کو اور اس عفریت سے نجات دلائیں۔
ریاض میں مسلم ریاستوں کے راہنماؤں کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے،اُنھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی کسی مذہب کے خلاف لڑائی نہیں ہے۔
ٹرمپ نے، جو چھ مسلمان اکثریتی ملکوں کے خلاف پابندی کے خواہاں ہیں جہاں سے دہشت گرد امریکہ میں داخل ہوئے تھے، ”قدامت پسند اسلامی دہشت گردی” کی اصطلاح استعمال نہیں کی، جیسا کہ وہ امریکہ میں تقریروں کے دوران کیا کرتے تھے۔ اس کے برعکس، اُنھوں نے مسلمان راہنمائوں سے کہا کہ وہ صدقِ دل سے ”اسلام پرست شدت پسندی اور اسلام نواز دہشت گرد گروہوں” سے صف آرا ہوں، جو اِس طرح کے جذبات پر اکساتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ ”کیا ہم بے حسی کا انداز اپنا کر درپیش برائی سے نبردآزما ہو سکتے ہیں؟”
ٹرمپ نے کہا کہ دہشت گردی سے لڑائی کا مقصد یہ ہے کہ بے گناہ مسلمانوں کے قتل، اور خواتین کے خلاف مظالم، یہودیوں کے خلاف عقوبت، مسیحیوں کے قتل عام کو روکنے کے لیے اکٹھے ہو جائیں”۔
اُںھوں نے کہا کہ مذہبی راہنمائوں کو یہ بات بالکل واضح کردینی ہوگی کہ وحشیانہ پن سے عظمت حاصل نہیں ہوسکتی؛ بُرائی کے ساتھ سمجھوتا کسی طور پر عزت کے قابل نہیں بنا سکتا”۔
اُنھوں نے کہا کہ اُن کا پہلا بیرون ملک دورہ، اسلامی دنیا کے مرکز سے شروع ہوا ہے، جہاں اسلام کے دو مقدس ترین مقامات ہیں، جن کا سعودی عرب نگران ہیں۔
امریکی صدر نے کہا کہ ہمارا نصب العین اس خطے اور دنیا میں امن، سلامتی اور خوشحالی کا حصول ہے۔
بعدازاں، ٹرمپ نے انتہاپسند نظرئے سے نبردآزما ہونے کے لیے ایک نئے عالمی مرکز کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ اس بات اعلان ہے کہ مسلمان اکثریتی ممالک قدامت پسندوں سے بچائو کے مقصد کے حصول میں سرکردہ کردار ادا کرنے پر کمر بستہ ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے مسلمان نوجوان بچوں اور بچیوں کو ڈر خوف، تشدد اور نفرت سے آزاد ماحول میسر آئے اور اُنھیں خوش حالی کے نئے عہد کی جانب بڑھنے کا ماحول میسر ہو۔
اُنھوں نے کہا کہ دنیا کے چند ہی ملک ہیں جو پُرتشدد حملوں سے بچ سکے ہیں، جب کہ امریکہ کو وحشیانہ حملوں کا سامنا رہا ہے، جیسا کہ 11 ستمبر کے حملے، بوسٹن بم حملہ، سان برنارڈینو اور اورلینڈو کے حملے۔ اِس ضمن میں، اُنھوں نے امریکہ کے علاوہ، افریقہ، جنوبی امریکہ، بھارت، روس، چین اور آسٹریلیا کا نام لیا۔
تاہم، اُنھوں نے کہا کہ ”مہلک ترین حملے خود عرب، مسلمان اور مشرقی وسطیٰ کے ملکوں کے بے گناہ لوگوں کو برداشت کرنا پڑے ہیں، جنھیں قتل، بربادی، تباہ کُن تشدد کی کارروائیوں کا سامنا رہا ہے”۔
بقول اُن کے، ”اندازوں کے مطابق، 95 فی صد سے زیادہ دہشت گرد حملےخود مسلمان ملکوں میں ہوئے ہیں۔”
امریکی صدر نے سعودی عرب، مصر، اردن، عراق، متحدہ عرب امارات، قطر، کویت، بحرین اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ملکوں کا نام لیا اور کہا کہ اُن کی ماضی کی ثقافتی و تعمیراتی اور مختلف شعبوں میں کامبابیوں کی تاریخ مثالی رہی ہے؛ جب کہ اُن میں سے کئی ملک اس وقت تیزی سے ترقی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ یہ ملک سوئیز کینال، بحیرہ روم، اور آبنائے ہرمز کی جہاز رانی کے کلیدی راستوں پر واقع ہیں، جس خطے کا مستقبل تابناک ہے، جس کی 65 فی صد آبادی 30 سال سے کم عمر کی ہے۔
امریکی صدر نے کہا کہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ بے گناہ افراد کا قتل کرتے وقت، دہشت گرد خدا کا نام لیتے ہیں، جب کہ مذہب میں اعتقاد رکھنے والے کسی فرد کے لیے ایسا کام کرنا ذلت کی بات ہونی چاہیئے۔
اُنھوں نے کہا کہ دہشت گردی اور تباہی کے مناظر سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ قتل ہونے والا یہودی یا مسیحی، شیعہ ہے یا سنی تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ ہم اس صورت حال پر تبھی قابو پا سکیں گے جب ہم متحد ہوں گے۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکہ آپ کے ساتھ کھڑا ہے۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ دہشت گرد دشمن سے نمٹنے اور اپنے یکساں مفادات کے تحفظ کے لیے خطے کے ملکوں کو خود آگے بڑھنا چاہیئے۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ بہتر مستقبل کو تبھی یقینی بنایا جاسکتا ہے اگر آپ کے ملک دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو ملک سے نکال باہر کریں۔
بقول اُن کے ”اِنھیں عبادت گاہوں، برادریوں، مقدس مقامات اور اس سر زمین سے گھسیٹ کر باہر نکال دیں”۔
امریکی صدر اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر ہفتہ کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پہنچے، جہاں سعودی قیادت کے ساتھ دو طرفہ ملاقاتوں کے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان اربوں ڈالر کے معاہدوں پر دستخط کیے۔
اتوار کو اپنی نوعیت کی پہلی عرب اسلامی امریکی کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں ٹرمپ سمیت 50 سے زائد ممالک کے راہنما شریک ہوئے۔ اجلاس میں شدت پسند گروپ داعش اور دیگر انتہا پسندوں سے نمٹنے کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ٹرمپ نے شدت پسندی کے خلاف لڑائی کو “اچھے اور برے کے درمیان لڑائی” قرار دیتے ہوئے عرب راہنماؤں سے اپیل کی کہ وہ “اپنی عبادت گاہوں سے دہشت گردوں کو نکال باہر کریں۔”
“انسانیت کے خلاف ناقابل بیان جرائم” پر شام کے صدر بشار الاسد اور ساتھ ہی شام کی چھ سالہ خانہ جنگی میں اپنا “حصہ ڈالنے پر”، ٹرمپ نے ایران کی مذمت کی۔
اُنھوں نے کہا کہ “مشرق وسطیٰ کی تمام باضمیر ریاستیں متحد ہو کر عدم استحکام کے لیے ایرانی پالیسی اور اثر و رسوخ کا خاتمہ کریں اور خطے میں مزید پائیداری کے لیے طاقت کے توازن کو بحال کریں۔ اور اس دن کے لیے دعا کریں جب ایران کے عوام کو ایسی صحیح اور ذمہ دار حکومت ملے جس کے وہ مستحق ہیں۔”
سعودی عرب کے دورے کے بعد ٹرمپ اسرائیل روانہ ہوں گے جہاں وہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات کریں گے اور یروشلم بھی جائیں گے۔