تحریر : عماد ظفر تہذیب و تمدن نہ تو جامد رہ سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں کسی خاص وقت یا روایات میں مقید کیا جا سکتا ہے.تبدیلی دنیا کی واحد حقیقت ہے جسے چاہنے یا نا چاہنے کے باوجود انسانوں کو قبول کرنا پڑتا ہے.نظریات و افکارات طاقت کے توازن کے تبدیل ہونے پر تبدیل ہو جایا کرتے ہیں. امریکی صدر ٹرمپ کا دورہ سعودیہ عرب، اور 55 اسلامی ممالک کے اتحاد کے اجلاس میں اس کا خطاب دراصل دنیا کی گلوبل ایسٹیبلیشمنٹ اور مسلمانوں کے بدلتے ہوئے افکار و نظریات کا منہ بولتا ثبوت ہے. ٹرمپ کا دورہ سعودیہ ،اس کا سعودی شاہی خاندان کی جانب سے شاندار استقبال اور مسلم ممالک کے اتحاد میں اس کی تقریر عالمی ایسٹیبلیشمنٹ کے اس نئے نظریے کی جانب واضح اشارہ ہے جس کے تحت عرب ممالک اور امریکہ و برطانیہ دنیا کی نئی صف بندیوں میں اپنے اتحاد کو ایک نئی شکل اور نیا رخ دینے کی جانب گامزن دکھائی دیتے ہیں. دوسری جانب سعودی عرب کی نرم ہوتی ہوئی کٹر مزہب پرست پالیسی اور بتدریج شخصی آذادی کی جانب قدم اس بات کا اشارہ ہیں کہ گلوبل ایسٹیبلیشمنٹ اب مذہب اور قومی نرگسیت کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی پالیسی کو ممکن طور پر ترک کرنا چاہتی ہے. ٹرمپ کا اجلاس کے دوران ایران پر مسلسل تنقید اور بشار الاسد کے خلاف بیان ایک تو اس چیز کا واضح اشارہ ہے کہ دیگر امریکی صدور کی مانند ٹرمپ بھی مسلم دنیا میں اپنے حلیفوں کو ساتھ لیکر چلنا چاہتے ہیں دوسری جانب یہ اس بات کی بھی نشاندہی ہے کہ سعودی عرب اور امریکہ کا گٹھ جوڑ مستقبل قریب میں مزید مضبوط ہونے والا ہے.
گو ایران اور سعودی عرب دونوں ہی مسلم ممالک میں فرقہ واریت کا زہر پھیلانے میں ہمیشہ سے آگے آگے ہیں لیکن امریکہ کے دیرینہ حلیف ہونے کی حیثیت کے ناطے سے سعودی عرب کے اکثر گناہوں سے امریکی حکام کی جانب سے چشم پوشی اختیار کرتے ہوئے محض ایران کو ہی ہدف تنقید بنایا جاتا ہے. سعودی بادشاہوں کے پاس “مسلم امہ” کے کارڈ کی موجودگی اسے عالمی ایسٹیبلیشمنٹ میں ایک اہم اتحادی کا کردار دلواتی ہے جبکہ ایران کے پاس ” شیعہ” کارڈ کی موجودگی اسے روس اور دیگر امریکی مخالف قوتوں کا اہم حلیف بناتا ہے.ایسے میں ہماری حیثیت کیا ہے اور گلوبل ایسٹیبلیشمنٹ میں ہمارا کیا کردار ہے یہ سمجھنے کیلیے کسی راکٹ سائینس کی ضرورت نہیں ہے. عرب ریاستوں میں اکثر وافر مقدار میں خون پسینہ ایک کرنے والے مشقتی مزدوروں کی ضرورت رہتی ہے اور ہم یہ ضرورت عرصہ دراز سے پوری کرتے آ رہے ہیں اسی طرح عالمی ایسٹیبلیشمنٹ کو جنگوں میں خون بہانے کیلیے جب جب کمک درکار ہوتی ہے تو بھی ہم حاضر ہوتے ہیں. 80 کی دہائی میں ہم نے روس توڑنے میں امریکہ اور گلوبل ایسٹیبلیشمنٹ کی مدد کی اور روس افغان تنازعے کو “جہاد” میں تبدیل کرتے ہوئے خوب ڈالر سمیٹے.
اب اسلامی اتحاد کی افواج کی سربراہی کر کے اور اپنی فوجیں بھیج کر یقینا ہم خوب ڈالرز کمائیں گے. یہ اور بات ہے کہ جیسے سن 80 کی دہائی میں کھائے گئے ڈالروں اور ریال کا نتیجہ ہماری نسلوں نے بھگتا ٹھیک اسی طرح اس اسلامی اتحاد میں شمولیت اور ڈالر و ریال کی نئی کھیپ کے نتائج ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑیں گے. لیکن کیا کیا جائے یہ مسلم امہ بھی ایک انتہائی رومان پرور خواب ہے جس کو بار بار دکھا کر مسلمانوں کے ہی ملکوں کو آگ بھی لگائی جاتی ہے اور آپس میں لڑوا کر جانوروں کی طرح مروایا بھی جاتا ہے لیکن عوام ٹس سے مس نہیں ہوتے . خوف و دہشت کے سائے تلے پروان چڑھنے والی زیادہ تر مسلمان نسلیں آج بھی مسلم امہ کے تصور کو سچ مان کر اس آزمودہ فارمولے کو بار بار خریدتی ہیں. امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے کا نعرہ آج بھی مسلمان ممالک میں خوب بکتا ہے .امریکہ کا یار اگر واقعی میں غدار ہے تو پھر سعودی عرب اور پاکستان تو امریکہ کے سب سے خاص یاروں اور کارندوں میں شمار ہوتے ہیں.
اب خود فیصلہ کر لیجئے کہ یہ نعرہ ہی سراسر غلط ہے یا پھر پاکستان و سعودی عرب . دوسری جانب اس 55اسلامی ممالک کے اتحاد کو دیکھ کر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اسلامی ممالک جنگوں کو مسلط کرنے کیلئے تو اتحاد بنا سکتے ہیں لیکن تعلیم کے فروغ کیلئے درسگاہوں یا نت نئی ایجادات کیلئے تحقیق گاہیں بنانے یا ریسرچ سںٹرز قائم کرنے کے حوالے سے انہیں کسی قسم کا اتحاد بنانے کا خیال کیوں نہیں آتا. کہا جاتا ہے کہ ترجیحات سے منازل کی سمت کا اندازہ ہوا کرتا ہےـ اگر ترجیحات صرف اور صرف ایک دوسرے کو نیچا دکھانا اور ہتھیاروں کی منڈی کا سب سے بڑا گاہک بننے کی ہوں تو پھر ظاہر ہے سائینسدانوں یا ایجادات کرنے والوں کے بجائے خود کش بمباروں یا فرقہ واریت کو لیکر شیعہ سنی کا کارڈ کھیلتے ایک دوسرے کو مارتے اور نیچا دکھاتے افراد ہی جنم لیں گے.اگر محض اسلحہ خرید کر یا ایٹم بم بنا کر اگر طاقتور کہلوایا جا سکتا تو شمالی کوریا آج دنیا کی سپر پاور کہلاتا.نہ تو جدید دنیا میں ہتھیاروں کی کوئی خاص اہمیت ہے اور نہ ہی ان سے کوئی بھی قابل ذکر ملک کسی قسم کے دباؤ کا شکار ہوتا پے.ہتھیاروں کا استعمال افغانستان یا شام جیسے کمزور ممالک پر تو کیا جا سکتا ہے لیکن کسی اہم ملک پر نہیں. چین دنیا کو ہتھیاروں کے دم پر نہیں بلکہ معیشت کے دم پر فتح کر رہا ہے. سعودی عرب اور ایران دونوں فریقین گلوبل ایسٹیبلیشمنٹ کے دو مختلف دھڑوں سے جڑ کر اپنا اپنا نظام بہر طور کسی نہ کسی طور چلا ہی رہے ہیں لیکن اب ہمیں یہ سوچنے کی اشد ضرورت ہے کہ آخر کب تک ہم سعودی یا ایرانی عقیدتمندی میں غلام بن کر دونوں ممالک کی پراکسی جنگ کا حصہ بنے رہیں گے.
امریکہ سے ہمارا مفادات کا رشتہ روز اول سے قائم ہے اور امریکہ نے سفارتی و معاشی محاذوں پر ہمیشہ پاکستان کی خاموش اور مضبوط تائید کی ہے. سی پیک کے منصوبے میں بھی اگر امریکی آشیرباد نہ ہوتی تو شاید ہم اس منصوبے کی جانب خلیجی ریاستوں کی مخالفت کی وجہ سے نہ بڑھ پاتے. جب امریکہ سے ہی مفادات حاصل کرنے ہیں تو پھر امریکہ کا یار غدار جیسے نعروں اور سوچ کا خاتمہ کیوں نہ کیا جائے. اگر چین کے تعاون سے ہی تجارتی انقلاب کی جانب بڑھنا ہے تو کفار کو نیست و نابود کرنے والی سوچ کا خاتمہ کیونکر نہ کیا جائے. جب سعودی عرب جیسا ملک اپنے کٹر اور قدامت پسند رجحانات کو ترک کر کے نئے عالمی تقاضوں کو سمجھتے ہوئے آگے بڑھ سکتا ہے تو پھر ہمارے لیئے یہ کیونکر ناممکن ہے. دنیا میں طاقت کی بساط پر ہر فریق اپنی اپنی بساط کے مطابق چالیں چلتا ہے. اس بساط پر اگر سعودی عرب اور ایران اپنی اپنی چالیں چلنے میں آزاد ہیں تو ہمیں بھی مسلم امہ کے فرضی و جعلی تصور سے نکل کر حقیقت کے ادراک کی ضرورت ہے.
دنیا میں کوئی بھی ملک نہ تو کسی کا مستقل دوست ہوتا ہے اور نہ ہی مستقل دشمن. ممالک کے مابین تعلقات ہمیشہ ضروریات اور مفادات کے تابع ہوتے ہیں. اگر بچوِں کو نصاب میں مطالعہ پاکستان پڑھاتے ہوئے ایران اور سعودیہ سے ہمارے تعلقات یا مسلم امہ کے فرضی قصوں کے بجائے یہ نکتہ سمجھایا جائے کہ دنیا میں موجود تمام ممالک مفادات کی وجہ سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں تو شاید مستقبل قریب میں آنے والی نسلیں ایک آبجیکٹیو انداز سے دنیا کو دیکھنے جانچنے اور پرکھنے کے قابل ہو سکیں گی. امریکی صدر ٹرمپ کو آپ جتنا مرضی برا بھلا کہیں لیکن اپنے وطن کیلئے وہ بالکل ٹھیک اقدامات کر رہا ہے اور عرب دنیا میں نئے اتحاد تشکیل دیکر اپنا تسلط عرب اور مسلم ممالک پر مضبوط کر رہا ہے.ضرورت اس امر کی ہے کہ اب ہم بھی طاقت کی عالمی بساط پر گلوبل ایسٹیبلیشمنٹ کا کارندہ بننے کے بجائے اس بساط کا ایک مضبوط فریق بن کر ابھریں اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب جزباتی اور کھوکھلے نعروں یا اصلاف پرستی و فرضی امہ کے نظریات کا پرچار کرنے کے بجائے معروضی حقائق پر مبنی افکار و نظریات کی ترویج کی جائے.