تحریر : علی عمران شاہین یہ نوے بانوے کی بات ہے، آرمی نے مجھے گھر سے اٹھا لے جا کر میری دونوں ٹانگیں کاٹ دیں، ہاتھ سے معذور کر دیا، آنکھوں میں ٹارچر کیااور میرے پورے بد ن کا جتنا بھی گوشت تھا، سارا کاٹ دیاا ور کاٹ کر ہمیں ہی قطرہ قطرہ (بوٹی بوٹی) کر کے ہمیں ہی کھلا رہے تھے۔اس وقت بھی ہم در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور اپنی اپیل کر رہے ہیں۔ یہ کہانی ہے مقبوضہ کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے رہنے والے بوڑھے محمد قلندر کھٹانہ کی جو وہ 10 مئی 2017 کو بی بی سی اردو کی”فوجی زیادتیوں کے شکار لوگوں کی عالمی برادری سے اپیل” کے نام سے جاری کردہ ایک ویڈیو رپورٹ میں بیان کر رہے تھے۔بوسیدہ کپڑے پہنے اور بے بسی اور بے کسی کی تصویر بنے کھٹانہ بمشکل ایک بنچ پر بیٹھے ہیں اور ان کے پاس وہ بیساکھیاں ہیں جن کے سہارے وہ رینگ رینگ کر سرینگر پہنچے تھے۔ کشمیر ہی کے رہنے والے ایک شہری محمد اشرف متو کی جانب سے بنائی گئی انسانی حقوق کی تنظیم کی جانب سے ان مظلوموں کی آواز دنیا تک پہنچانے کا اہتما م کیا گیا تھا۔ یہیں موجود بارہمولہ کی رہائشی طاہرہ بیگم اپنی کہانی بیان کرتے بتا رہی تھیں کہ انہیں (میرے شوہر نامدار کو )بھارتی فوج اٹھا کر چلی گئی اور آج تک ان کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ میرے تین چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ،میں انہیں پا ل رہی ہوںاور اپنے بچوں کے لئے مزدوری کر رہی ہوں ۔ہم ہر جگہ پہنچے لیکن ان (میرے میاں) کا کوئی پتہ نہیں چلا۔یہ داستان یہیں تک محدود نہیں ہے۔
اس سے اگلے روز بی بی سی اردو نے ہی مقبوضہ کشمیر کی کچھ ان مائوں کے تاثرات بیان کئے جن کے بچے روز گھر سے صاف ستھری اور اجلی وردی زیب تن کر کے اور چمکتے جوتے پہن کر اور کمر سے بیگ لٹکا کر تعلیم حاصل کرنے کے لئے نکلتے ہیں لیکن ان مائوں کو کچھ علم نہیں ہوتا کہ ان کے جگر پارے زندہ ان کے پاس واپس بھی آئیں گے کہ نہیں۔گھر سے سکول کالج یا یونیورسٹی بھیج کر ان کی واپسی تک ان مائوں پر کیا گزرتی ہو گی ؟شاید ہم تو سوچ بھی نہ سکیں۔
”گولیوں اور دھماکوں کے درمیان کشمیری مائیں کیا سوچتی ہیں؟ ”کے عنوان تلے نمائندہ ماجد جہانگیرنے بیان کیا کہ انڈیا کے خلاف مظاہرہ کرنے والے کشمیری نوجوان ایک جانب ہاتھ میں پتھر لیے کھڑے ہیں تو دوسری طرف انڈین سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں میں بندوقیں ہیں۔انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ دس ماہ سے حالات انتہائی نازک ہیں جہاں مظاہرے، سنگ باری، فائرنگ اور عام لوگوں کی ہلاکتیں اب معمول کی بات ہے۔ اس رپورٹ میں مقبوضہ کشمیر کی ایک سیماب صفت اور آہنی عزم و جذبہ رکھنے والی خاتون پروینہ آہنگرکا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔پانچ بچوں کی ماں 60 سالہ پروینہ آہنگر کا نام دنیا کے بہت سے لوگ جانتے ہیں جنہوں نے اپنی اب زندگی کا آخری حصہ بھی جدوجہد آزادی کو آگے بڑھانے اور جور و ستم سہنے والے کشمیریوں کے زخموں کی آہ و فغاں بہری گونگی دنیا کے کانوں میں ڈالنے کے لئے وقف کر رکھا ہے۔
پروینہ آہنگر کا تذکرہ کرتے بی بی سی نے بیان کیا :پروینہ کہتی ہیں: ”آج بچے سب کچھ آن لائن تلاش کر رہے ہیں۔ ہر قسم کی ویڈیو وہاں مہیا ہوتی ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ کس طرح انڈیا نے ہم پر ظلم کیا۔ پھر وہ اپنا دل بناتے ہیں اور کئی بار خاندان والوں کی بھی نہیں سنتے۔عالم یہ ہے کہ کشمیر میں اب لڑکیوں نے بھی پتھر اٹھا لیے ہیں۔ فوج ان پر شیلنگ کرتی ہے اور جواب میں نوجوان پتھر پھینکتے ہیں۔ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو جاتا، تب تک کوئی ماں چین سے نہیں بیٹھ سکتی۔’ ‘پروینہ کا الزام ہے کہ ان کے 27 سالہ بیٹے کو ایک برس قبل فوج اٹھا کر لے گئی تھی اور آج تک اسے واپس نہیں کیا گیا۔کچھ ایسا ہی الزام ہے ضلع بڈگام میں رہنے والی رھتی بیگم کا۔ وہ 59 سال کی ہیں اور سات بچوں کی ماں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ”ہم سچائی کا ساتھ دے سکتے ہیں. ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے، جب تک کشمیر کی ہر ماں کا بیٹا واپس نہیں آ جاتا۔” یہ باتیں کرنے والی مائیں ،بہنیں اور بیٹیاں سرینگر کے ہر ی پرتاپ پارک میں گاہے گاہے جمع ہوتی رہتی ہیں جہاں آہوں اور سسکیوں کے بیچ وہ دنیا آباد ہوتی ہے جسے کوئی دل والا شاید ہی پورا دیکھ سن پائے لیکن ان سب سے دور ایک اور جہاں آباد ہے جسے مہذب دنیا کہا جاتا ہے جہاں کتوں بلیوں جیسے حیوانات کے بھی حقوق ہیں اور جہاں سے یہ خبریں ہم سنتے دیکھتے پڑھتے رہتے ہیں کہ ایک معذور کچھوے کو سمندر سے نکال کر اور پھر انتہائی حساس و طویل سرجری کے بعد اس کی مصنوعی ٹانگیں لگا دی گئیںاور اب کچھوا چلنے پھرنے لگا ہے۔
کبھی بتایا جاتا ہے کہ ان کے اتنے باہمت لوگوں نے اتنی جانفشانی سے جنگلوں صحرائوں میں جان کی بازیاں لگا کرفلاں جانور کی جان بچا لی۔یہ کیسی دنیا ہے جنہیں سمندروں کی تہ میں کچھوے اور جنگلوں صحرائوں میں مشکل سے دوچار جانور تو دکھائی دیتے ہیں لیکن کشمیر میں بھارتی گولیوں سے ریزہ ریزہ ہوتے انسان کبھی دکھائی نہیں دیتے اور ان کے لئے کبھی اقوام متحدہ جیسے کسی ادارے سے کوئی صدا بلند بھی ہو تو وہ بھی اتنی ہوتی ہے جس سے ان کی تشویش سے بات آگے نہیں بڑھتی۔
یہ کشمیری اگر زخموں سے چور ہو جائیں تو علاج کے لئے کہاں جائیں؟اس کا نہ کوئی جواب دیتا ہے اور نہ کسی کو اس کی فکر ہے۔گزشتہ دنوں ہمارے خطے میں علاج معالجے کی جھوٹی شہرت پانے والے بھارت کے ڈاکٹروں کا خبث باطن بھی تب کھل کر سامنے آیا جب انہوں نے ایک کشمیر ی خاتون کا یہ کہہ کر علاج کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ اس خطے سے تعلق رکھتی ہے جہاں کے بچے، بوڑھے ،مرد و خواتین ہماری فوجوں کو سنگسار کرتے ہیں۔نسرین ملک نامی کشمیری خاتون کے بیٹے نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنی والدہ کو علاج کی غرض سے پی جی آئی چندی گڑھ لے گیا، جہاں منوج تیواری نامی ڈاکٹر نے ابتداء میں ہم سے اچھا سلوک کیا، لیکن جب اُس نے صورہ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کے نسخہ جات اورکاغذات دیکھے جن سے اسے پتہ چل گیا کہ ہم کشمیری ہیں تو وہ آگ بگولہ ہوگیا۔ ڈاکٹرنے آنکھوں سے شعلے برساتے اور آواز میں بدترین ارتعاش پیدا کرتے ہوئے کہا کہ ”وہاں کشمیر میں ہمارے(فوجی) جوانوں کو پتھر مارتے ہو اور پھر یہاں علاج معالجہ کرنے آتے ہو” پھر ساتھ ہی ڈاکٹر نے ہمارے تمام کاغذات پھینک دیے اور جاں بلب میری ماں کا علاج کرنے سے صاف انکار کردیا۔ہمارا اصرا ر دیکھ کر اور دیگر لوگوں کو پاس دیکھ کر ڈاکٹر نے ہمیںدھکے دے کر تو نہ نکالا لیکن اس نے ایسی مذموم چال چلی کہ ہمیں وہاں سے نکلنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ ڈاکٹر نے ہمیں انتہائی تُرش اور درشت لہجے میں کہا کہ آپ کے علاج پر 15 لاکھ کا خرچہ آئے گا جب کہ میری والدہ جس بیماری میں مبتلا ہیں، وہاں اُس کا زیادہ سے زیادہ 80ہزار کا خرچہ آتا ہے۔ ہمیںوہاں شروع سے ہی نسلی تعصب اور بیمار سوچ کا شکار ہونا پڑا۔ہماری داستاں الم دنیا تک بھی پہنچی لیکن انسانوں کی تعداد میںدنیا میں دوسرا نمبر رکھنے والے اس بھارت میں کوئی ایک انسان بھی ایسا نہ ملا جسے ہمارا درد اور تکلیف دکھائی دی ہو۔کہنے کو یہاں ہزارہا ہزار انسانی حقوق کے ادارے قدم قدم پر قائم ہیں لیکن ان سے وابستہ کسی ایک فردوبشر نے بھی ہمیں انسان جان یا مان کر ہماری از راہ ِ انسانیت ہی ہماری رہنمائی تک کرنا گوارہ نہ کیا اوریوں ہسپتال انتظامیہ کے بہت ہی بُرے برتائوکی وجہ سے ہمیں اس ”شفاخانے” سے بغیر علاج ومعالجہ کے بے نیل مرام لوٹنا پڑا۔”
ساڑھے سات ارب چلتے پھرتے لیکن اپنی ہی دنیا میں مست و مگن انسانوں کی اس دنیا میں بسنے والے سوا کروڑ کشمیری اگر بندوق نہ اٹھائیں تو کیا کریں۔بھارت کے ہاتھوں ذلت و رسوائی سے دوچار ہو کر سسک سسک کر مرنے کے بجائے لڑتے کٹتے من کے اطمینان کے ساتھ اس دنیا سے نہ جائیں تو کیاکریں ؟لیکن ظلم کی ایک حد ہوتی ہے اور وہ حد آن پہنچی ہے اور اب نئی دہلی میں جیسے جیسے ہانپتے کانپتے بھارتی نیتائوں کے ہر روز بڑے سے بڑے اجلاس ہوتے ہیں وہ ایک نئی روشن صبح کی کرنیں لا رہے ہیں تو اے اہل پاکستان ! اب تم بھی جاگ جائو ،بہت دیر کر دی اس کا بھی کچھ حق ادا کر دو۔
Ali Imran Shaheen
تحریر : علی عمران شاہین (برائے رابطہ:0321-4646375)