تحریر : ملک محمد سلمان وکالت نہ صرف ایک معزز پیشہ ہے بلکہ دکھی انسانیت کی عظیم خدمت بھی ہے ۔پاکستان بھر کے وکلاء نے ایک طویل جدوجہد کی اور جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی میں اپنا یادگار کردار ادا کیا ،یہ احتجاج تو رنگ لے آیا مگر پاکستان بھر کے وکلاء کو ایک نیا موڑ دے گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں دہشت گردی کے ساتھ ساتھ وکلاء گردی کی اصطلاح سامنے آئی ، وکلاء نے جب چاہا ،جہاں چاہا اور جسے چاہا اپنے جوتے کی نوک پر رکھ لیا۔کہیں معزز عدالتوں کے جج صاحبان ان کے ہتھے چڑھے اور ان پر جوتے برسائے، کہیں عدالتوں میں پیشی پر پولیس افسران ،کہیں عدالتی اہلکار اور کہیں بد نصیب سائلین وکلاء گردی کا شکار ہوئے۔
مسلم لیگ (ن) لائرزونگ اور حکومت کے حامی وکلاء نے لاہور ہائی کورٹ بار میں وزیراعظم نواز شریف کے استعفیٰ کیلئے طلب کیا گیا آل پاکستان وکلاء کنونشن الٹا دیا،اس موقع پر دونوں گروپوں کے وکلاء کے درمیان دھکم پیل ہوئی، آڈیٹوریم کے شیشے ٹوٹ گئے ،کرسیاں الٹ گئیں اور صدرسپریم کورٹ باررشید اے رضوی سمیت دیگر رہنمائوں کو لائبریری میں بند کردیاگیا۔کنونشن انتظامیہ کو قرار داد منظور کروانے کا موقع نہ ملا توکنونشن کے انعقاد کے بغیر ہی اعلامیہ جاری کردیا جس میں وزیراعظم کو مستعفی ہونے کیلئے سات دن کی ڈیڈ لائن دی گئی ۔ جبکہ تحریک چلانے کیلئے صدر سپریم کورٹ بار رشید اے رضوی کی سربراہی میں نیشنل ایکشن کمیٹی بھی تشکیل دیدی گئی۔
لاہورہائی کورٹ میں توڑ پھوڑ، دھکم پیل اوروکلاء راہنمائوں کو لائبریری میں بند کرناانتہائی شرمناک فعل ہے۔مسلم لیگ (ن) لا ئر ز فورم کے سربراہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نصیر بھٹہ اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے کنوشن پرحملہ بار کے تقدس کے خلاف اور قابل مواخذہ عمل ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نصیر بھٹہ کوناصرف عہدے سے ہٹایا جانا چاہیے بلکہ ساتھیوں سمیت ان کے خلاف قانونی کاروائی بھی ضرور ہونی چاہیے تاکہ بار کا تقدس بحال ہوسکے۔
پاناما کیس کے معاملے میں وزیراعظم نواز شریف سے استعفیٰ کے مطالبے پر وکلاء برادری تقسیم ہوچکی ہے۔حکومتی حمائتی وکلاء کی کثیر تعداد میں مذاہمت سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ وزیر اعظم کے استعفیٰ کے لیے چلائی جانے والی تحریک ہرگز وکلاء تحریک نہیں ہے بلکہ حکومت مخالف گروپ ہے۔لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی منتخب باڈی کے کچھ وکلاء ووٹر میں بھی اس حوالے شدید بے چینی دیکھنی میں آرہی ہے ان کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنا ووٹ سیاسی استعمال کیلئے نہیں دیا تھا ۔ وکلا ء قائدین کی طرف سے وکلاء کی فلاح وبہبودکیلئے اقدامات کرنے کی بجائے سیاسی جماعتوں کے آلہ کار بن جاناقابل افسوس ہے۔
یاد رہے کہ رواں ماہ6 مئی کو پاکستان بار کونسل کے تحت وکلاء نمائندگان کی ایک کانفرنس بلائی گئی تھی جس میں وکلاء اتحاد کو برقرار رکھنے اور پاناما کیس میں وزیراعظم کے استعفے کے معاملے پر کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے ملک بھر سے84 بار رہنماؤں نے شرکت کی تھی۔کانفرنس میں 24 وکلاء رہنمائوں نے وزیراعظم سے فوری مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا جبکہ 48 نے کہا تھا کہ جے آئی ٹی کی تحقیقات کا انتظار کرنا چاہیئے، اس سے قبل کوئی احتجاج کرنا غیردانشمندانہ فیصلہ ہوگا اور اس سے جمہوری نظام کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔کانفرنس میں شریک 12 وکلاء نے کوئی رائے نہیں دی تھی اور کہا کہ پی بی سی کا جو بھی فیصلہ ہوگا اس کی حمایت کریں گے۔
قبل ازیں پانامہ کیس فیصلہ کے بعدوکلاء کی طرف سے وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ سب سے پہلے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے کیا تھا ا ورساتھ ہی وکلاء تحریک چلانے کی دھمکی بھی دی تھی۔وکلاء لیڈرشپ کو خدائی فوجدار سوچ کو ترک کرنا ہوگا ”کن فیکون”صرف اللہ ہی کی صفت ہے ۔وزیراعظم سے اخلاقی طور پرمستعفی ہونے کا مطالبہ ہرپاکستانی کا حق ہے ،لیکن اس بات کا بھی خیال ہونا چاہیے کہ اخلاقی طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی اخلاقی اقدار میں ہی ہونا چاہیے نہ کہ لٹھ لیکر چڑھ دوڑنے سے۔عوامی مینڈیٹ سے منتخب وزیر اعظم پر کوئی بھی فیصلہ زبردستی نہیں تھونپا جاسکتا،وکلاء سمیت کسی بھی ادارے کوسربراہ مملکت کو ڈکٹییٹ کرنے کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں۔جب قانون کے رکھوالے ہی عدالتی فیصلے سڑکوں پر کرنے کے خواہشمند ہوںگے تو پھر قانون کی بالادستی کے سامنے سوالیہ نشان ہے؟ جس ملک میں وکلاء قانون شکن ہو جائیں ،ججز کو گالیاں دیں ،انہیں زود وکوب کر کے کمروں میں محبوس کر دیں اس معاشرے میں انصاف کی امید کیسے کی جاسکتی ہے ۔معززجج صاحبان ایسے” جگے” وکیلوں کے خلاف کیسے فیصلہ سناسکتے ہیں؟۔وکلاء تحریک چلانے والوں کو چاہیے کہ اپنی سمت کا تعین کریں اپنی حدود اور اختیارات سے تجاوزکرنے کی بجائے اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کو پہچانیں جنہوں نے کالے کوٹ کو کالے کرتوت میں بدل دیا ہے۔
وکلاء کی جانب سے آئے روزپولیس اہلکاروں پر تشدد کیا جاتاہے،احاطہ عدالت سے ملزمان کو بھگایا جاتا ہے۔سچ کی آوازبننے پر صحافیوں پر تشدداور انکے کیمرے چھیننے کا عمل عام رویہ بن چکا ہے۔ وکلاء کو یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ وہ قانون دان ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ قانون سے بالاتر ہیں اور جب جہاں چاہیںبے قابو ہوجائیں، جس کو چاہے پِیٹ ڈالیں، جس کی چاہیں پگڑی اچھال دیں۔ وکلا گردی پاکستان کے عدالتی نظام کو ناقابل بیان نقصان پہنچائے گی۔ان حالات میں میڈیا کی طرف سے سارے وکلاء کو بدمعاش بنا کر پیش کرنا ہرگز عقل مندی نہیں۔وکلاء میں بھی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو صرف حق کا ساتھ دیتے ہیں اور جھوٹے کا مقدمہ تک نہیں لڑتے۔ یہ بے چارے ہمیشہ کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہیں، اس طبقہ سے معذرت کے ساتھ کیونکہ میرے موضوع کا تعلق وکلاء کے مخصوص اجارہ دار اور مفاد پرست عنصر کے ساتھ ہے لہٰذا لکھی گئی تحریر میں وکلاء کا یہی عنصر مراد ہے۔