تحریر: ڈاکٹر عزیز سہیل 26 اپریل 2017ء کو جامعہ عثمانیہ حیدرآباد نے اپنے قیام کے 100 سال تکمیل کرلئے ہیں۔ اس سلسلہ میں یونیورسٹی اور حکومت تلنگانہ کی جانب سے صدر جمہوریہ ہند کی موجودگی میں صدسالہ جشن کا اہتمام کیا گیا تھا،لیکن اس پروگرام میں اردو کے لئے کوئی موقع فراہم نہیں کیا گیا حالانکہ یونیورسٹی کا قیام اور ایک مدت تک یونیورسٹی کا ذریعہ تعلیم اردو ہی رہا ہے ایک منصوبہ کے تحت یونیورسٹی سے اردو کا خاتمہ کردیا گیا اب اردو کا شعبہ ہی اردو ذریعہ تعلیم ہے لیکن اس کی صورتحا ل بھی بہتر نہیں کہی جاسکتی ۔محکمہ اقلیت اور اردو اکیڈیمی تلنگانہ نے عثمانیہ یونیورسٹی کی صد سالہ تقاریب اردو والوں کے لئے کرنا طئے کیا ہے اس سلسلہ میں دوروزہ سمینار 22اور 23مئی کو بیگم پیٹ کی ایک ہوٹل میں منعقد ہوگا اور 25تاریخ کو شام غزل کا اہتمام عمل میں لایا جائے گا۔
سمینار کیلئے جو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اس میں بزرگ اساتذہ ہی کو شامل کیا گیا ہے انہوں نے سمیناروں میں صدارت اور مقالہ پیش کرنے کی ذمہ داری بجائے یونیورسٹی کے اساتذہ اور ریسرچ اسکالرس کو دینے کے خود ہی اپنے نام پیش کرلئے ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ صدارت میں بزرگ اساتذہ رہتے اور مقالہ نگاروں میں چند لیکچرارس اور اسکالرس کو موقع دیا جاتا تو بہتر تھا۔تعجب اس بات کا ہے کہ اس سمینار کے دعوت نامہ میں نا ہی وائس چانسلر،رجسٹرار اور پرنسپل آرٹس کالج کے نام شامل ہیں اور نہ ہی یوینورسٹی سے کسی اعلی عہددار کو نمائندگی دی گئی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ صدر شعبہ اردو اس میں شامل ہے۔
اردو والوں کی یہ روش بہت غلط ہے کہ متعلقہ عہدیداروں کو ہی جشن سے دور رکھا جائے۔سمینار کے مقاصد میں لکھا گیا ہے کہ آصف سابع ،عثمانیہ یونیورسٹی اور اس کے اساتذہ کی خدمات سے نئی نسل کو واقف کروایا جائے گا ۔لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ بزرگ حضرات نئی نسل کی تربیت اور ترقی میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے ہیں اور اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دئے رہے ہیں اردو اکیڈیمی بھی چاہتی ہے کہ اردو والے اردو کے پروگرام سے دور رہے اس لئے کہ پروگرام کو شہر سے دور مقام پر رکھا گیا اور شرط یہ ہے کہ سمینار میں شرکت کرنے والے احباب دعوت نامہ ساتھ لائیں۔
حانکہ کسی بھی سمینار میں شرکاء کی تعداد سو سے زائد نہیں رہتی پھر بھی یہ شرائط کس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں!اردو پروفیسر حضرات اور اکیڈیمی کو اپنے خامیوں پر نظر رکھنی ہوگی اور اردو کے فروغ کے لئے نئی نسل کو آگے بڑھانا ہوگا اور ضرورت بھی ہے کہ اردو کا سرمایہ ایک پیڑی سے دوسری پیڑی میں منتقل ہو۔اور اردو ترقی کے مراحل طئے کرئے۔کسی شاعر نے بہت خوب کہا ہے۔۔
تمہارا شہر،تم ہی مدعی، تم ہی منصف مجھے یقین ہے میرا ہی قصور نکلے گا