تحریر : میر افسر امان اس میں شک نہیں کہ دہشت گردی نے مسلم ممالک کو چور چور کر دیا ہے اسے ہر حالت میں ختم ہونا چاہیے لیکن ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ پرانے شکاری کے نئے جال میں پھنس کر کہیں مسلم ممالک میں دہشت گردی مزید بڑھ جائے۔ اس لیے پھوک پھوک کر کوئی بھی قدم اُٹھانا چاہیے۔ سعودی عرب کی سربراہی میں عرب، مسلم ممالک اور امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٥٥ ملکوں کا مشترکہ اتحاد بنایا ہے۔ سب سے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ نمبر١۔ دہشت گردی شروع کہاں سے ہوئی اور اب اس کی پشت پنائی کو ن کر رہا ہے نمبر٢۔ اس دہشت گردی کانشانہ کون ہے اور اس کا فاہدہ کس کو ہے۔اگر تازہ ترین دہشت گردی پر بات کی جائے تو حالیہ دہشت گردی امریکا کے نائن الیون حملہ کے بعد شروع ہوئی۔
نائن الیون کے محرکات پر بات کی جائے تو ایک نکتہ نظر ہے کہ یہ مسلمانوں کو کچلنے کے لیے شیطانی ذہن اسرائیل اور امریکا کے گٹ جور سے ترتیب دی گئی ہے۔اس کے شواہد پر اگر بات کی جائے تو جس دن یہ واقعہ ہوا تو اس دن ٹوئن ٹاور میں کام کرنے والے ہزاروں یہودی ورکروں نے چھٹی کیوں کی تھی؟ کیا کسی پٹرول سے چلنے والے جہاز کے پٹرول سے سومنزلہ ٹوئن ٹاور جو مضبوط سریے اور سیمنٹ سے بنا ہوا ہو زمین بو س ہو سکتا ہے؟ امریکا میں کی گئی ماہرین کی تحقیق کے مطابق ایسا ہر گز ممکن نہیں۔ پینٹاگون میں جو جہاز ٹکرایاتھا اس سے عمارت میں جو سوراخ ہوا تھا وہ پٹرول سے چلنے والے جہازکے ٹکرانے سے ممکن نہیں۔یہ بھی امریکا میں تحقیق سے ثابت کیا گیا تھا۔جودہشت گرد ٹکرانے والوں جہازوں میں سوار تھے انکی فہرست نام اور پاسٹ پورٹ اور کس ایئر پورٹ سے اُڑان لی دنیا کے سامنے نہیں لائی گئی۔ جو جعلی نام دنیا کے سامنے لائے بھی گئے ان میں ایک سعودی باشندہ صحیح سلامت زندہ اپنے ملک میں موجود تھا۔
ماسٹر مائنڈ شیخ خالد محمد نامی بتایا گیا جو اب بھی گوانتے موبے جیل میں قید ہے جو ایک خبطلحواس شخص ہے۔ یہ خبر بھی امریکا میں عام ہوئی تھی کہ ٹوئن ٹاور کی تہہ میں بارود رکھ کر اسے زمین بوس کیا گیا اگر جہاز کے ٹکرانے سے گرتا بھی تو ٹیڑا ہو کر گرتا۔ لہٰذا یہ خیال حقیقت لگتا ہے کہ مسلمانوں کو کچلنے کے لیے یہود و نصارا نے یہ سازش تیار کی تھی۔اس کا اظہار اس وقت کے امریکی صدر بش کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا تھا کہ ہم نے صلیبی جنگ کا آغازکر دیا ہے۔اس کی تصدیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ دہشت گردی سے ساری قتل غارت مسلمان ملکوں میں ہی ہو رہی ہے۔جس میں افغانستان، عراق، شام، یمن، مشرق وسطح اور پاکستان شامل ہے۔ یہ بھی ساری دنیا جانتی ہے کہ القاعدہ،طالبان اور داعش امریکا اور مغربی ملکوں نے ملکوں بنائی ہیںیا صلیبیوں کے مظالم سے تنگ مصلح جنگ کرنے والی مسلم تنظیموں میں اپنی زر خرید ایجنٹ داخل کیے۔ان سے انسانیت سوزحرکتیں کروا کر ان تنظیموں کو دہشت گرد ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ القاعدہ کے عرب جنگجووں کو امریکا ہی افغانستان لایاتھا۔پھرروس کی شکست کے بعد ان کا مخالف ہو گیا۔
پریس میں یہ بات موجود ہے کہ افغانستان پر حملہ سے پہلے امریکی کانگریس میں بعث ہوئی تھی کہ افغانیوں نے پہلے برطانیہ اور روس کو شکست سے دو چار کیا تھا اب امریکا کیوں اس جنگ میں اُلجھ رہا ہے تو امریکی فوجی قیادت نے کہا تھا کہ اس کا انتظام ہم نے پہلے سے کر رکھا ہے۔ اس کا ثبوت (ر) جنرل شاہد عزیز کی کتا ب” یہ خاموشی کہاں تک” میں ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ہم نے ڈکٹیٹر مشرف کو اطلاح دی کہ پاکستانی طالبان کی امریکہ مدد کر رہا ہے ا ور بھارت طالبان کو فاٹا میں دہشت گردی کی ٹرینینگ دے رہا۔ویسے تو یہ سب کچھ ڈکٹیٹر مشرف کو پہلے سے معلوم تھاپھر بھی اس نے اس کے خلاف کو ئی کاروائی نہیں کی۔ داعش کو بنانے کی تو ہیلری کلنٹن اپنی کتاب میں تصدیق کر چکی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی صدارتی مہم میں داعش بنانے کا الزام بھی ہیلری کلنٹن پر لگا چکا ہے۔
ساری دہشت گردی کا نقصان مسلمانوں کا اور مسلمان ملکوں کو لڑا کر فاہدہ صلیبیوں کا ہورہا ہے۔ صاحبو!اصل بات یہ ہے کہ جب صلیبیوں نے ١٩٢٤ء ترکی کے سلطان عبدالحمید کو معزول کر کے مسلمانوں کی خلافت ختم کی تھی تو امریکا کے وزیر دفاع نے بیان دیا تھا کہ آئندہ دنیا میں مسلمانوں کو کہیں بھی خلافت قائم نہیں کرنے دی جائے گی ۔یعنی سیاسی حکومت جس میں مسلمانوں کی شہریت کی حکمرانی ہو۔ اگر مسلمان ملکوں میں جمہوری طریقے سے بھی کہیں لولی لنگڑی خلافت قائم کرنے کی مسلمان کوشش ہوتی ہے تو مسلمان پٹھو حکمرونوں سے ملک کر صلیبی اس کو ختم کر دیتے ہیں۔اس کی مثال فرانس کی نو آبادی الجزائر کی ہے۔ جس میں جمہوری طریقے سے ووٹ کے ذریعے آنے والی تبدیلی کو برداشت نہیں کیا گیا۔ فوج سے شہریوں کو لڑا دیا گیا لاکھوں کو قتل کر دیا گیا۔ مصر میں پہلی بار جمہوری طریقے سے تبدیلی کو برداشت نہیں کیا گیا اور ڈکٹیٹر سیسی نے اپنی عوام پرفوجی ٹینک چڑھا کر مرسی کی منتخب حکومت کو ختم کر دیا۔ افغانستان میں فوج کشی کر کے طالبان کی اسلامی حکومت کو بزور طاقت ختم کر دیا۔ امریکا کی ہی وجہ سے ترکی اور پاکستان میں فوج بار بار اقتدار پر قبضہ کرتی رہی ہے۔
ساری اسلامی دنیا میں پٹھو حکمرانوں کی حکومتیں قائم کی ہوئیں ہیں۔اب ان حالات میں پرانے شکاری امریکا نے نیا جال تیار کر کے اسلامی ملکوں کو اس میں بند کرنے کے لیے عرب،امریکا، اسلامی ملکوں کے اتحاد کی منصوبہ بندی کی ہے۔ اس میں امریکا کی چال اور مسلمانوں کے آپس کے اختلافات ہیں۔ جس میں خاص پرایران کا بے لگام ہونا بھی شامل ہے۔شام میں اقلیتی شعیہ فرقے کی حمایت میں اسکے فوجی سنی عوام سے لڑ رہے ہیں۔عراق میں امریکا سے مل کرصدام کی کی سنی حکومت کو فتح کر کے شعیہ حکومت قائم کر دی۔ یمن میں حوثی قبائل کو فوجی ٹرینیگ دے کر سعودی عرب کے خلاف جنگ پر لگا دیا۔خلیجی ممالک کو بھی دھمکیاں دیتا رہتاہے۔حزب اللہ کے حسن نصراللہ کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ ہم سعودی میں مکہ اور مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیںگے۔ایرانی لیڈروں کے بیان کہ ہماری جنگ ترک سنیوں سے ہے ہم ان سے اپنے علاقے واپس لے رہے ہیں۔بھارت کی شہ پر پاکستان کے اندر گولہ باری کر تا رہتا ہے ابھی چاغی کے علاقہ پر چھ ماٹر گولے فائر کیے ہیں۔ کلبھوشن بھارتی جاسوس چاہ بہار ایرانی پورٹ پر ہی تعینات رہا ہے۔لیاری کراچی کی امن کمیٹی کے دہشت گرد عزیر کے ایرانی جاسوس ادارے سے تعوقات رہے ہیں۔
ان حالات میںامریکی ،عرب، اسلامی ٥٥ ملکوں کے سربراہی اتحاد میں شاہ سعودسلمان کا کہنا کہ ایران دیگر ممالک کے معاملات میں مداخلت کر رہا ہے جو عالمی قوانین کے خلاف ہے سعودی عرب کو دہشت گردی کا سامنا کر رہا ہے ایران دہشت گردی کا مرکز بنا ہوا ہے درست لگتا ہے۔ ڈونلڈٹرمپ کا کہنا کہ جب تک ایران تعاون نہیں کرتا اسے تنہا کر دیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلمان ملکوں کے خلاف امریکی چال پر بھی احتیاط سے سوچنا چاہیے۔
امریکا کے اپنے مفادات ہیں۔وہ کبھی بھی اسلامی ملکوں کا دوست نہیں رہا ہے۔اسلامی ملکوں میں اپنے مفادات کے لیے پٹھو حوکتیں قائم کی ہوئی ہیں۔اپنا اسلح فروخت کرنے کے لیے مسلمان ملکوں کو سازشوں کے ذریعے لڑاتا رہتا ہے۔ مسلمان ملکوں کو اس اتحاد میں ایران،یمن شام اور عراق کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ اتحاد صرف دہشت گردی کو ختم کرنے تک محدود ہو۔ اس وقت اسلام کو یہودی عیسائی بین القوامی میڈیانے دہشت گرد ثابت کر دیا ہے۔اس لیے پھوک پھوک کر قدم اُٹھانا چاہیے۔ایران کومتنبہ کرنا کافی ہے۔ اس اتحاد کو سنی شعیہ مخالفت میں تبدیل کرنے کی امریکی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہیے۔ایران کو بھی اپنے جارحانہ رویہ پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ دنیا میں جس ملک میں شعیہ مسلک کی اکثریت ہے وہاں شعیہ حکومت اور جن ملکوں میں سنی اکثریت ہے وہاں سنی حکومت قائم کرنے کے فارمولا پر عمل کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کے آپس کے اتحاد میں ہی فاہدہ ہے نہ کہ کسی غیر ملک کے پٹھو بننے میں۔ اللہ مسلمانوں کا محافط ہو آمین۔
Mir Afsar Aman
تحریر : میر افسر امان کنوینر کالمسٹ کونسل آ پاکستان