تحریر : عبدالوارث ساجد بھارتی بزنس مین جندل کو پاکستانی وزیر اعظم سے پراسرار ملاقات کے بعد واپس گئے مہینوں گزر گئے مگر لوگ اب تک وہ راز ڈھوندنے میں مصروف تھے جس رازداری میں چھپ چھپا کر جندل نے نواز شریف صاحب سے ملاقات کی تھی۔ جندل کے جانے کے بعد بھارتی جاسوس کلبھوشن کا کیس پھر سے منظر عام پر آگیاجو آہستہ آہستہ پھانسی کی سزا کے بعد ٹھنڈا پڑ گیا تھا۔ جندل کے پاکستان سے جاتے ہی اس کی پھانسی کی سزا کو بھارت عالمی عدالت میں لے گیا۔اور پھر جو کچھ ہوا اس پر پوری پاکستانی قوم حیران ہے اور پریشان ہے بھارتی جاسوس کل بھوشن یاد یو کو 2016ء میں ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔ جہاں وہ حسین مبارک پٹیل کے نام سے پاکستان مخالف تخریبی اور دہشت گرد کارروائیوں کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔
بھارت نے پہلے توکل بھوشن سے لا تعلقی کا اظہار کیا لیکن بعد ازاں نہ صرف یہ قبول کیا کہ وہ بھارتی اور انڈین نیوی کا افسر ہے بلکہ سشما سوراج نے کہا کہ کل بھوشن کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے۔ کل بھوشن کے اعترافی بیانات کے بعد اس پر آرمی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور اسے دفاع کے لیے لیگل ٹیم بھی فراہم کی گئی لیکن تمام الزامات ثابت ہونے پر 10اپریل2017ء کو اسے سزائے موت سنا دی گئی۔ اس دوران بھارت نے اپنے جاسوس کو پاکستان میں پھانسی کی سزا سنائے جانے کے معاملے میں بین الاقوامی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ عالمی عدالت انصاف میں پاکستان کے وکیل نے عدالت کو ثبوت بھی دکھائے اور کل بھوشن کے سہولت کاروں کے نام بھی بتائے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان نے بھارت سے تحقیقات میں معاونت کے لیے خط لکھا۔ پاکستان نے بھارت کو بتایا کہ قونصلر تک رسائی کا فیصلہ پاکستانی خط کے جواب میں ہو گا۔
فیصلہ آنے کے بعد اب حکومتی کارندے یہ کہہ کر دامن سے مٹی جھاڑ رہے ہیں کہ عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ حتمی نہیں۔ جسے پاکستان کی وزارت خارجہ نے بھی تسلیم کرنے سے انکار کر دیاہے۔ عالمی عدالت کا فیصلہ ایسے ہی آنا تھا۔ کیونکہ یہ جنگ اسلام اور کفر کی جنگ ہے۔ رسول عربی ۖ کا کہا کیسے جھوٹا ہو سکتا ہے۔کہ یہود و نصاری کبھی بھی تمہارے خیر خواہ نہیں ہوسکتے۔ مگر غلطی تو اپنی ہے کہ ہم اپنا مقدمہ لڑنا ہی نہیں چاہتے۔ اگر چاہتے ہوتے تو عالمی فورم پر آواز نہ اٹھاتے کہ یہ صاحب جاسوس نہیں دہشت گرد ہے جو رنگ ہاتھوں پکڑا گیاَ اور اعتراف بھی کرچکا ہے۔ کوئی پریس کانفرنس کوئی عالمی فورم پر گفتگو کبھی بھی کسی جگہ ہمارے ملک کے وزیر اعظم نے اس بندے کا نام تک نہیں لیا۔ جس دہشت گرد نے پورے بلوچستان کو بم دھماکے کروا کر کھود ڈالا وزرات خارجہ کے مشیران اسے دنیا کے سامنے دہشت گرد کہنے سے ہی کتراتے ہیں۔ پکڑا جانے والے جاسوس خود تو اعتراف کرتا ہے کہ میں نے بم دھماکے کروائے پورا نیٹ ورک قائم کیا۔ مگر حکومتی ارکاران یہ بات اپنی زبان سے نہیں کہہ پاتے۔ ایسی دوغلی پالیسی پر مقدمے کیسے جیتے جا سکتے ہیں۔
جب آپ چپ سادھ لیں گے اور جان بوجھ کر گونگے بن جائیں تو پھر دوسرا تو بولے گا ہی۔ جانے کیوں حکومت نے عالمی عدالت کے لیے ناتجربہ کار وکیل چنا؟ پاکستانی وکیل نے 90کے بجائے صرف 50منٹ کیوں استعمال کیے؟ دلائل کے لیے اٹارنی جنرل خود ہیگ کیوں نہیں گئے؟ دفتر خارجہ نے معاملے پر خط و کتابت کرنے سے پہلے ضروری قانونی مشاورت کیوں نہیں کی گئی؟ پاکستان نے ایسے وکیل کا انتخاب کیوں کیا جس کے نام پر برطانوی سپریم کورٹ کا ایک بھی اعلان شدہ مقدمہ موجود نہیں؟ ایسے وکیل کا انتخاب کیوں کیا گیا جس نے آزادانہ طور پر عالمی عدالت انصاف میں کبھی کوئی مقدمہ ہی نہیں لڑا؟اٹارنی جنرل کو بجھوانے کے بجائے ان کے ایک معاون کو عالمی عدالت انصاف کیون بھجوایا گیا؟ حکومت نے قطر سے تعلق رکھنے والے وکیل(لندن کیوسی) کو اس مقدمے کے لیے کیوں منتخب کیا؟ ان سوالات پر اگر غور کریں تو لامحالہ اور سوالات اٹھتے ہیں۔
کردار شکوک ہوتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ بند کمروں اور خفیہ اجلاسوں میں اختیار کی گئی حکمت عملی اسی نوعیت کی ناکامیاں لے کر آتی ہے۔ لوگ پھر ایسا ہی تو کہیں گے کہ نواز حکومت نے جان بوجھ کر اس معاملے پر کمزور اور ناقص حکمت عملی اختیار کی۔ اس کوفیصلے جو جندال کی نواز شریف سے ملاقات کا ثمر کہنا بھی درست دکھائی دے رہا ہے۔ 10مئی تک پاکستان کے پاس ایڈہاک جج کے تقرر کا حق موجود تھا، حکومت پاکستان بہت کچھ کر سکتی تھی، مگر کچھ بھی نہ کیا گیا جو اقدامات ہونے چاہئیں تھے وہ نہیں کئے گئے۔ حکومت کی تیاری ہی نہیں تھی، کل بھوشن کے معاملے پر عالمی بیانی مستحکم انداز میں کیوں نہیں پیش کیا گیا، اب اتنے سارے عوام کے سوالوں کا جواب حکومت دینا بھی نہیں چاہتی۔ اور دے گی بھی نہیں کیونکہ انڈیا کے خلاف کچھ بولنا حکومتی پالیسی ہی نہیں۔
لوگ پریشان ہیں اور حیران ہیں کہ آخر کل بھوشن کے معاملے میں ایسا کیا کہ وزیر اعظم اس معاملے میں کھل کر بات ہی نہیں پاتے۔ کیا یہ ملکی معاملہ نہیں اور ملکی معاملات کب تک بزنس کے پھیلائو کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔ کیا پاکستان کے دفاع کی زمہ دارای صرف فوج پر ہی ہے اور کب تک صرف فوج ہی پاکستان کو بچائے گی۔ پاکستان کے لیے لڑے گی اور کب تک میاں نواز شیریف وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھ کر جندل جیسے لوگوں سے چھپ کر ملتے رہیں گیااور ہمیں پاکستان کی سلامتی کے خلاف فیصلے سننے پڑیں گے کیا آنے والا یہ فیصلہ اس ملاقات کا ثمر تو نہیں جس کے لیے جندل آیا تھا۔کیا جندل اسی لیے آیا تھا۔