تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ کلبھوشن کو پھانسی دینے کا اعلان ہوتے ہی ۔ بھارت میں بھونچال آ گیا۔پاکستان میں دہشت گردی کا دھڑلے سے اعتراف کرنے والے۔ کلبھوشن بھارت کا ہیرو بن گیا ۔سرکاری سطح پر بھارت کا بیٹا قرار دے دیا گیا ۔حکومت، عدلیہ، میڈیا ، فوج ۔غرض یہ کہ تمام ادارے و شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے ۔ ایک پیج پر جمع ہو گئے۔
لیکن پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی جس کی پیدائش 2 مارچ، 1972ء کو کراچی میں پیدا ہوئی۔ 8 سال کی عمر تک زیمبیا میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد کراچی میں ابتدائی اور ثانوی تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد بوسٹن ٹیکساس میں جامعہ ٹیکساس میں کچھ عرصہ رہیں پھر وہاں سے میساچوسٹس ادارہ ٹیکنالوجی چلی آئیں اور اس ادارہ سے وراثیات میں علمائی (.Ph.D) کی سند حاصل کی۔
2002ء میں پاکستان واپس آئیں مگر ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے امریکہ ملازمت ڈھونڈنے کے سلسلہ میں دورہ پر گئیں۔ اس دوران میریلینڈ میں ڈاک وصول کرنے کے لیے ڈاک ڈبہ کرائے پر لیا اور 2003ء میں کراچی واپس آ گئیں۔ FBI نے شک ظاہر کیا کہ یہ ڈاک ڈبہ دراصل القاعدہ سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کے لیے کرائے پر لیا گیا تھا۔ امریکی ابلاغ میں عافیہ صدیقی کی بطور دہشت گرد تشہیر کی گئی۔ یہ دیکھ کر عافیہ کچھ دیر کراچی میں روپوش ہو گئی۔ 30 مارچ، 2003ء کو اپنے تین بچوں سمیت راولپنڈی جانے کیلئے ٹیکسی میں ہوائی اڈا کی طرف روانہ ہوئی مگر راستے میں پاکستانی خفیہ ادارے نے بچوں سمیت عافیہ کو اغوا کرکے امریکی فوجیوں کے حوالے کر دیا۔ مقامی اخباروں میں عافیہ کی گرفتاری کی خبر شائع ہوئی مگر بعد میں وزیروں نے لاعلمی کا اظہار کیا اور ان کی والدہ کو دھمکیاں دی گئیں۔
عالمی اداروں نے خیال ظاہر کیا کہ افغانستان میں امریکی جیل بگرام میں قیدی نمبر 650 شاید عافیہ صدیقی ہی ہے جو وہاں بے حد بری حالت میں قید تھی۔ پاکستانی اخبارات میں شور مچنے کے بعد امریکیوں نے اچانک اعلان کیا کہ عافیہ کو 27 جولائی، 2008ء کو افغانستان سے گرفتار کر کے نیویارک پہنچا دیا گیا ہے تاکہ ان پر دہشت گردی کے حوالہ سے مقدمہ چلایا جا سکے ۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے امریکی کہانی کو ناقابل یقین قرار دیا۔ افغانستان میں امریکی فوجیوں نے دوران گرفتاری عافیہ کو گولیوں کا نشانہ بنا کر شدید زخمی کر دیا، تب امریکی فوجی معالجین نے عافیہ کی طبی حالت کو گلاسگو غشی میزان پر بتایا۔ تاہم امریکیوں نے الزام لگایا کہ عافیہ نے امریکی فوجی کی بندوق اٹھانے کی کوشش کی تھی جس پر انھوں نے اس پر گولیاں چلا دیں۔ اسلام آباد عدالت میں ایک درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ پرویز مشرف دور میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ڈالروں کے عوض امریکیوں کے ہاتھ فروخت کیا گیا۔اگست 2009ء میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بتایا کہ حکومت 2 ملین ڈالر تین امریکی وکیلوں کو دے گی جو عافیہ صدیقی کے لیے ”امریکی عدالت” میں پیشی کرینگے ۔خیال رہے کہ لاہور کی عدالت اعلیٰ نے حکومت کو یہ رقم جاری کرنے سے منع کیا تھا کیونکہ خدشہ تھا کہ رقم خرد برد کر لی جائے گی۔ عدالت میں درخواست گزار نے کہا تھا کہ امریکی عدالت سے انصاف کی توقع نہیں، اس لیے یہ پیسے عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کر کے خرچ کیے جائیں۔
دسمبر 2009ء میں بالآخر کراچی پولیس نے عافیہ صدیقی اور ان کے بچوں کے 2003ء میں اغوا کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کر لیا۔ستمبر 2010ء میں پاکستانی حکومت نے دعوی کیا کہ اس نے امریکی حکام سے عافیہ صدیقی کو باعزت وطن واپس بھیجنے کا مطالبہ بذریعہ خط کیا ہے ۔ 23 ستمبر، 2010ء میں نیویارک امریکی عدالت نے عافیہ صدیقی کو 86 سال قید کی سزا سنائی۔ جون 2013ء میں امریکی فوجی زنداں فورٹ ورتھ میں عافیہ پر حملہ کیا گیا جس سے وہ دو دن بیہوش رہی۔ بالاخر وکیل کی مداخلت پر اسے طبی امداد دی گئی۔
پھانسی کی خبر آتے ہی کلبھوشن کو بچانے کے لئے بھارت میں ۔ نہ کوئی لبرل رہا نہ سیکولر، نہ ہندو رہا نہ مسلمان، نہ اقلیت رہی نہ اکثریت ۔ نہ دائیں جانب کا بیانیہ رہا نہ بائیں جانب ۔ نہ دلائل رہے نہ تاویلیں ۔ نہ ملحدوں کو مرچیں لگی نہ بھگوان کے پجاریوں کو منہ کی بواسیر ہوئی۔بس ایک آواز گونجتی سنائی دے رہی ہے کہ ۔کلبھوشن بھارت کا بیٹا ہے اسے واپس لانا ہے ۔ اور بالآخر یہ آواز عالمی عدالت میں بھی سنائی دی ۔ اور اب آثار بتاتے ہیں کہ کلبھوشن کی واپسی کا وقت قریب ہے۔
اگر مورخ چوہدری نثار کے سوشل میڈیا آپریشن سے بچ گیا تو ضرور لکھے گا ۔ کہ ایسے حکمران بھی تھے ۔جنھوں نے اپنی عزت اپنی بیٹی ڈاکٹر عافیہ ۔ خود پکڑ کر غیروں کے حوالے کردی ۔ انسانیت سوز مظالم سہتی ۔ بیٹی کی تصاویر بھی غیرت نہ جگا سکی ۔مظالم کرنے والے تھک گئے ۔ ان کی عدالتیں جھوٹے الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہی ۔ تو خود اشارے دینے لگ گئی کہ ہم سے سرکاری سطح پر رابطہ کرو۔ اور اپنی ی واپس لے جائو ۔مگر حکمران اپنا اصل چہرہ سامنے آنے کے خوف سے ۔ اس زندہ لاش کو واپس لانے کیلئے تیار نہیں ۔ جیسے ہی ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کیلئے آواز بلند کی جائے تو ۔یہ قوم تقسیم در تقسیم کا شکار ہوجاتی ہے۔
لاکھوں پاکستانیوں کا خیال ہے کہ ڈاکٹر عافیہ سندھی بلوچی پٹھان پنجابی نہیں اس لئے کیوں آواز اٹھائیں ۔ڈاکٹر عافیہ لبرل، ملحد لادین نہیں اس لئے کیوں موم بتیاں روشن کریں ۔ڈاکٹر عافیہ سنی بریلوی، شیعہ نہیں اس لئے کیوں ماتم کریں یا اجتماعات کرائیں ۔ ڈاکٹر عافیہ کسی وزیر اعظم کی بیٹی نہیں ۔ اس لئے کوئی قطری شہزادہ کیوں خط لکھے ۔وہ ایسے حاکموں کی رعایا ہے۔ جو بیٹی فروش کہلائے جانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔